ملک کسی بھی قسم کے بحران میں ہو، بحران آئینی ہو، معاشی ہو، سیاسی ہو یا امن و امان کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہو جب تک ریاستی ادارے یکسوئی اور اتفاق رائے کے ساتھ کام نہیں کریں گے، اتفاق رائے اور مشترکہ حکمت عملی نہیں ہو گی اس وقت تک نہ تو معاشی استحکام ہو سکتا ہے، نہ سیاسی استحکام آ سکتا ہے، نہ پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے، نہ ہی کوئی آئینی بحران ختم ہو سکتا ہے۔ میں برسوں سے یہ لکھ رہا ہوں، مختلف مواقع پر اہم شخصیات کو یہ پیغام پہنچا چکا ہوں اور ہر اس جگہ جہاں یہ بات ہونی چاہیے اور موقع ملے تو ضرور کرتا ہوں۔ اس لیے کوئی یہ مت سمجھے کہ اتنے بڑے پیمانے اور اعلی سطح پر اتفاق رائے کے بغیر ملکی مسائل حل ہو سکتے ہیں، بالخصوص ملک کے منتخب وزیراعظم، افواج پاکستان کے سربراہ، چیف جسٹس آف پاکستان متفقہ حکمت عملی نہیں اپناتے تو پھر اپنی کشتی ہچکولے کھاتی رہے گی۔ ان دنوں جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، جس برے طریقے سے اداروں کے مابین مختلف معاملات میں شدت نظر آ رہی ہے وہ تشویش ناک ہے۔ عدلیہ اور طرف بڑھ رہی ہے، پارلیمنٹ کی اپنی سوچ ہے۔ امن و امان اپنی جگہ خراب ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری ہے۔ ان حالات میں اگر توانائیاں، وقت اور وسائل درست سمت میں استعمال نہ ہوں تو اندرونی طور پر بھی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور بیرونی طور پر بھی مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس لیے بڑوں کو سوچنا یہ ہے کہ مشکلات سے نکلنا ہے تو اس کے لیے سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا، مل بیٹھنا ہو گا، آگے بڑھنے کے لیے اگر وقتی طور پر بوقت ضرورت پیچھے ہٹنا پڑے تو لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے بہتر مستقبل کی خاطر یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے جہاں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر اور غذائی قلت کا شکار ہیں، بزرگ سڑکوں پر اپنا بڑھاپا رول رہے ہیں کیا اس بزرگی اور معصومیت کا جواب کسی نے نہیں دینا۔ اپنی لڑائیاں بعد میں لڑیں، پہلے اس ملک کا اور قوم کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ لوگوں کو بند گلی میں دھکیلیں۔ نعرے بازی، بیانات، جھوٹے وعدے اور سبز باغ، جذباتی تقاریر سے نکل کر عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔ اس معاملے میں تلخیوں کے کم ہونے تک حالات معمول پر نہیں آ سکتے جیسا کہ گذشتہ روز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آئینی عدالت ہرصورت بنا کر رہیں گے، بہتر ہو گا آئینی عدالت سب مل بیٹھ کر بنائیں۔ قانون سازی، آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہو سکتی،ہماراعدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے آج کل عدالت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو چکی۔ آئینی عدالت اس لیے بنائیں گے تاکہ عوام کو انصاف مل سکے، آئینی وفاقی عدالت ضروری اور مجبوری ہے ۔ جج اور ادارے کی نیت پر شک کرتے ہو کرو لیکن میری نیت پر شک نہ کرو، ہم تین نسلوں سے عدلیہ کی مضبوطی کیلئے لڑ رہے ہیں،ہمیں دھمکی دی گئی کہ انیسویں آئینی ترامیم منظور کریں، ہم چارٹر آف ڈیموکریسی پر پورا عمل کرتے ہیں،عدالتی ریفارمز کوپورا کرے گے،قانون سازی اورآئین سازی عدالت کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اگر پاکستان موجود اورطاقت ور ہے وہ 73 کے آئین کی وجہ سے ہے، ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے آمر اور آمرانہ دور دیکھا ہے، ہم نے دیکھا کہ کس
طریقے سے جج آمر کو کام کرنے دیتاہے،میں اس خاندان اور جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جس نے متفقہ آئین دیا۔ ہم تین نسلوں سے آئین سازی کرتے آ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کا اعلان آئینی ترمیم کے غالب سے واضح پیغام ہے۔ آئین سازی کے حوالے سے تو ان کا موقف حقائق پر مبنی ہے اور اپنے نانا سے والدہ اور پھر اب وہ اس عمل کا حصہ ہیں اور کہیں نہ کہیں لیڈ بھی کر رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن انہوں نے آئینی ترمیم کے حوالے سے واضح موقف بہرحال قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایس آئی پاکستان دشمنوں کیلئے سب سے بڑی دفاعی لائن ہے ۔ دشمنوں کے تمام منصوبوں کا ناکام بنانے میں آئی ایس آئی کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے اور پاکستان کے دشمنوں کو منطقی انجام تک پہنچانے یا ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کی ہے اور یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی گئی ہے۔ آج بھی ملک کو اندرونی سطح پر اگر امن و امان کے معاملے میں مشکلات کا سامنا ہے، بیرونی و عالمی سطح تعلقات کو مضبوط بنانے کا معاملہ ہے تو سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر دفاعی ادارے اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ گذرے چند ماہ کے دوران انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے امن عمل کو نقصان پہنچانے والوں کا ہر ٹھکانہ تباہ کیا جائے گا۔ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز اور قومی مفاد کے دیگر اہم معاملات بالخصوص دفاعی معاملات میں آئی ایس آئی ملک دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ لوگ اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں لیکن آزادی کو قائم رکھنے اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں آئی ایس آئی کا کردار تو ہے۔ دشمن ملک بھارت اس حوالے سے پراپیگنڈا میں کبھی پیچھے نہیں رہتا ، بھارت ہر وقت آئی ایس آئی کے حوالے سے کام کرتا رہتا ہے۔ بھارت اپنی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالتا ہے ، وہ تو کبوتر پکڑ کر بھی آئی ایس آئی پر الزام دھرتا ہے اور یاد رکھیں صرف بھارت ہی پاکستان کا دشمن نہیں اس میں اور ممالک بھی شریک ہیں۔ دفاعی ادارے ان تمام دشمنوں کا مقابلہ ہمہ وقت کر رہے ہیں ۔ ان دنوں ملک جن حالات سے گذر رہا ہے ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی پر بھاری ذمہ داری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ناصرف دنیا کے مختلف ممالک سے دفاعی معاملات میں تعلقات مضبوط ہوں گے، اندرونی طور پر امن و امان کو لاحق خطرات کم ہوں گے، ہم پائیدار امن قائم کرنے کی طرف بڑھیں گے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات میں یقینی طور پر بہتری آئے گی۔ ان دونوں صوبوں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہاں انٹیلی جنس کا کردار بہت اہم ہے اور آئی ایس آئی میں اعلی سطح پر قیادت میں تبدیلی کے بعد نئے ڈی جی آئی ایس آئی سے بہت توقعات ہیں۔ وہ یقینا اپنی نئی ذمہ داریوں کو عمدہ و احسن طریقے سے نبھائیں گے۔ ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلانے میں جہاں ان کی ضرورت ہو گی وہ اپنا کردار نبھائیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کر دیا گیا ہے۔ وہ تیس ستمبر کو اپنی نئی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم اس وقت جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بلوچستان میں انفنٹری ڈیویژن اور وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کمانڈ کر چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم اپنے کورس میں اعزازی شمشیر بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ چیف انسٹرکٹر این ڈی یو اور انسٹرکٹر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ بھی تعینات رہ چکے ہیں
لیفٹیننٹ جنرل عاصم فورٹ لیون ورتھ اور رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز کے گریجویٹ بھی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک فوجی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد غلام محمد بھی لیفٹیننٹ جنرل تعینات رہے اور انہوں نے کورکمانڈر راولپنڈی کے فرائض بھی انجام دیے جب کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کے والد کو جنرل جی ایم کے طور پر جانا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کا شمار افواج پاکستان کے باصلاحیت افسران میں ہوتا ہے۔ وہ یقینا ملکی حالات کے پیش نظر اس اہم عہدے پر خدمات انجام دیں گے۔ اللہ اس ملک کو سلامت رکھے۔ ملکی دفاع کے لیے روزانہ کی بنیاد پر افواج پاکستان کے افسران، جوان، رینجرز کے جوان، پولیس اہلکار، نہتے اور معصوم شہری اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دشمنوں کا خاتمہ ہو گا اور دشمن کا ساتھ دینے والوں کا بھی منہ کالا ہو گا۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
طلوعِ شمسِ مفارقت ہے،
پرانی کرنیں
نئے مکانوں کے آنگنوں میں لرز رہی ہیں
فصیلِ شہرِ وفا کے روزن
چمکتے ذروں سے بھر گئے ہیں، چمکتے ذرے!
گئے دنوں کی عزیز باتیں
نگار صبحیں، گلاب راتیں
بساطِ دل بھی عجیب شے ہے
ہزار جیتیں، ہزار ماتیں
جدائیوں کی ہوائیں لمحوں کی خشک مٹی اڑا رہی ہیں
گئی رتوں کا ملال کب تک!
چلو کے شاخیں تو ٹوٹتی ہیں
چلو کے قبروں پہ خون رونے سے اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں
یہ موڑ وہ ہے جہاں سے میرے
تمھارے رستے بدل گئے ہیں
(پرانی راہوں کو لوٹنا بھی ہماری تقدیر میں نہیں ہے)
کہ راستے بھی ہمارے قدموں کے ساتھ آگے نکل گئے ہیں
طلوعِ شمسِ مفارقت ہے
تم اپنی آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے ستاروں کو موت دے دو
گئی رتوں کے تمام پھولوں تمام خاروں کو موت دے دو
نئے سفر کو حیات بخشو
کہ پچھلی راہوں پہ ثبت جتنے نقوشِ پا ہیں غبار ہوں گے
ہوا اڑائے کہ تم اڑاؤ!