اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ادارے صرف گفت و شنید اور رابطے کے ذریعے ترقی کر سکتے ہیں۔ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کے شعبہ قانون اور فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ سے خطاب میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو گفت و شنید، اشتراک اور دیکھ بھال کے کلچر کو فروغ دینا چاہئے، کئی بار کہہ چکا ہوں ثالثی تنازعات کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مجھے نہیں لگتا ثالثی تنازعات حل کیے بغیر ہم 24 لاکھ مقدمات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں، ہمارا قانونی چارہ جوئی کرنے والا معاشرہ ہے جس سے زیر التوا مقدمات کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے پاس ان مقدمات کو نمٹانے کے لیے صرف چار ہزار ججز دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا نئے مقدمات کی وجہ سے زیر التوا مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل ہمارے پاس اے ڈی آر کی صورت میں ہے جو راکٹ سائنس نہیں۔ مقدمہ بازی کا سب سے سمارٹ حل اے ڈی آر ہی ہے۔ مقدمات مسئلے کے حل کے لئے اے ڈی آر کی طرف جانا ہوگا۔ زیر التوا مقدمات اے ڈی آر سینٹر منتقل کرنے کے لئے ضلعی سطح پر اے ڈی آر سینٹر بنانا ہوں گے۔ شہریوں کو انصاف کی جلد فراہمی کے لئے اے ڈی آر سینٹرز میں مقدمات جلد نمٹائے جا سکیں گے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بات چیت کرنا اہم اور ضروری ہے۔ جج کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہئے تاکہ کوئی متعصب نہ کہے۔