آئین سازوں نے الیکشن کمشن کو ادارہ بنایا، چاہیں تو ختم کر دیں، چیف جسٹس: پنجاب میں انتخابی ٹربیونلز بنانے کا زبانی حکم، فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے +نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ الیکشن کمشن ٹربیونلز کے نوٹیفکیشن کا آغاز آج سے ہی کر دے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے الیکشن کمشن کی اپیل پر سماعت کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں بنچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل ہیں۔ سماعت کے آغاز میں جواب دہندہ سلمان اکرم کے وکیل حامد خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کے کیس سننے پر اعتراض ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کو علیحدہ کرنا ہے تو کرلیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمشن کے تحریری جواب کے مطابق ہائیکورٹ کی مشاورت سے مسئلہ حل ہوگیا۔ اس پر وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ جی بالکل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 4 ٹربیونلز قائم رکھے اور قانون بدلنے کے بعد اب باقی 4 الیکشن کمشن مقرر کرے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو معاملات عدالت کے نہیں انہیں آپس میں حل کریں، ایک درخواست کر کرکے تھک گیا ہوں کہ دیکھیں آئین کیا کہتا ہے، آئین کی کتاب ہے لیکن آئین کو کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کمشن کے پاس اختیار ہے لیکن ٹربیونل کیلئے ججز کی تعیناتی ہائیکورٹس کی مشاورت سے ہوتی ہے، ٹربیونل میں ججز کی تعیناتی پر پسند ناپسند کی بات اب ختم ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹربیونل کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسزکو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیرمنصفانہ ہوگا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں نے الیکشن کمشن کو ادارہ بنایا اور وہ چاہیں تو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر الیکشن کمشن کو عملدرآمد کرنا چاہیے تھا، لاہورہائیکورٹ کے حکم پر کوئی فیصلہ دیے بغیر سپریم کورٹ معاملہ ختم نہیں کرسکتی۔ سلمان اکرم راجا کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم عدالتی فیصلوں پر انحصار کریں یا آئین پر؟۔ عدالت آئین کی پابند ہے، مجھے سروکار نہیں کسی جج نے کیا فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی مرضی کے ججز ٹربیونلز کے لیے چاہتے ہیں؟۔ جب لاہور ہائیکورٹ میں مشاورت ہوچکی تو مزید کیا کرنا چاہیے؟۔ آپ چاہتے ہیں ٹربیونلز کا معاملہ ختم ہی نا ہو۔ اس پرسلمان اکرم نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم یا برقرار رکھے بغیر یہ کیس ختم نہیں ہوگا، الیکشن کمشن کے پاس اختیار نہیں کہ کون سا جج کون سا ٹربیونل کیس سنے گا۔ عدالتی فیصلوں کے بجائے صرف آئین پر عملدرآمد ہو تو ملک میں مسائل پیدا ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں کی دانائی ہوتی ہے، آئین بہت پیچیدہ کتاب ہے جو صرف ایک داناشخص ہی سمجھ سکتا ہے۔ فی الحال الیکشن کمشن ایک آئینی ادارہ ہے، اگر ہائیکورٹ اگر الیکٹورل کام شروع کردے تو کیا ہوگا؟۔ بعد ازاں عدالت نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں پنجاب کے 8 الیکشن ٹربیونلز کے قیام کا معاملہ حل ہوگیا۔ مشاورت کے بعد 4الیکشن ٹربیونلز پر نام فائنل، 4ریٹائرڈ ججز کا تقرر الیکشن کمیشن کرے گا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت کے میٹنگ منٹس پیش کر دیے گئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے چیف جسٹس پر اعتراض کردیا۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مرضی کے ججز سے فیصلے چاہتے ہیں؟۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے بینچ سے علیحدگی کی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ بیٹھ جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالتی کارروائی کی آخری سماعت کا آرڈر پڑھنے دیں۔ آپ کو سنیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، ہم دشمن نہیں ایک ملک کے بسنے والے ہیں، گزشتہ سماعت پر الیکشن کمشن کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھیجا، ہم نے سیکھنا ہے کہ اداروں کو کام کرنے دیں، اختلافات کے ہونے سے انکار نہیں، خط و کتابت کی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ نہیں ہوتا، خط و کتابت میں جو زبان استعمال ہوتی ہے، یہ طریقہ نہیں ملک چلانے کا۔ وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ اب مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب جتنا جلدی ہو سکے انتخابی عذرداریوں کے فیصلے ہونے چاہئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان سے تو ٹریبونلز کے فیصلے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی ایک دن بھی مدت نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ہمارے پاس بھی ایسے مقدمات آئے جو سٹے پر چلتے رہے۔ ڈپٹی سپیکر نے بھی حکم امتناع حاصل کرکے آئین کی خلافِ ورزی کی۔ اب شاید وہ ڈپٹی سپیکر انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔ تنازعات ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اداروں پر حملہ کردیں۔ آئین کو پڑھنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔ آئین میں واضح ہے کہ ٹربیونل تشکیل دینا الیکشن کمشن کا اختیار ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمشن کا اختیار چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت سے مشروط ہے۔ الیکشن کمشن کو اختیار نہیں کہ چیف جسٹس کے بھیجے ہوئے نام مسترد کر دے۔ الیکشن کمشن چیف جسٹس سے ججز کا پینل بھی نہیں مانگ سکتا۔ تاثر دیا گیا کہ مقدمہ میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ حامد خان کے بیرون ملک ہونے کی درخواست آئی تھی، اس وجہ سے کیس تاخیر کا شکار ہوا۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے غلط خبروں پر وضاحت کیوں نہیں کی؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں ملک میں نہیں تھا اس وجہ سے کسی خبر کا علم نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کورٹ رپورٹنگ حقائق پر ہوتی تھی اب ڈالرز کے لیے ہوتی ہے۔ درخواست گزار مرضی کا جج چاہے گا تو نظام انصاف ختم سمجھیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مرضی کے جج سے فیصلے کا کبھی نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں؟۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اداروں کے درمیان پہلے ہی تنازعہ ہے۔ جسٹس عقیل عباسی کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 8 میں سے 4 ٹریبونلز فنکشنل ہو گئے ہیں۔ اب 4 ٹریبونلز الیکشن کمیشن نوٹیفائی کرے گا، جس پر جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ان ریٹائرڈ ججز کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی ہے؟۔ جسٹس میٹنگ منٹس میں نہیں کہا گیا رضامندی دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمشن کا رضامندی سے متعلق پیراگراف کیا حذف کیا جاسکتا ہے؟۔ جھگڑا اختیارات سے تجاوز کرنے پر آتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ کیا کمشن کونسل سے اوپر ہے جو کہے یہ جج ٹھیک ہے یہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مناسب طریقہ کار اپنائیں۔ وکیل درخواست گزار سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پہلے جو 4ججز الیکشن ٹربیونلز میں لگائے گئے انہیں ہٹا دیا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ججز کی نیت پر شک نہ کریں، ججز اللہ کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سابق چیف جسٹس امیر بھٹی نے جو 2 تقرریاں کیں کیا آپ وہ چاہتے ہیں، ایک جج ہو جس کا قریبی رشتہ دار سیاست دان ہو، کیا اسے ٹربیونلز کے لیے ججز لگانے چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن