اہل تصوف اور دانش کدہ کے مکینوں کا ایمان ہے کہ جس دَر کو پکڑ لو پھر وہاں سے اْٹھنے کا نام نہیں لینا۔ ایک نہ ایک دن، دینی اور دنیاوی رَمْوز تمہارے سامنے ایسے ظاہر ہونگے جیسے چودھویں کے چاند کی چاندنی میں ایک پہر ایسا بھی آتا ہے جب بندہ خود اپنی سانسوں کی نہ صرف سرسراہٹ اور حدت محسوس کرتا ہے بلکہ وہ اپنی چلتی سانسوں کو نْور کی صورت میں دیکھ بھی رہا ہوتا ہے اور یہی وہ ’’وجد‘‘ کے لمحات ہوتے ہیں جو نصیب والوں کا مقدر بنتے ہیں۔ اپنے خمیر میں بھی یہ صفت ہے کہ جس دَر پر بیٹھ گئے پھر وہاں سے اْٹھنے کا نام نہیں لیا۔ پندرہ سال ہو گئے جب سے ادارہ نوائے وقت کیلئے لکھنا شروع کیا پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ خوش قسمتی کہ مرشد مجید نظامی کی امامت ملی جبکہ آج کے دن تک سعید آسی جیسے کہنہ مشق اْستاد کی راہنمائی مل رہی ہے اور اس اْمید پر کہ ان جیسے اہل نظر کے کرم سے ہم بھی ایک نہ ایک دن مستفید ہونگے۔ کبھی کبھار ہم بھی کْھل کر اتنا لکھ لیتے ہیں کہ چاہے اس میں انسانی نفسیات اور جذبات کا غلبہ نظر آئے لیکن اسکے ساتھ یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ ادارہ کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کی حدود اور قیود کی پاسداری رہے۔ جلے دل کے ساتھ نیچے لکھی جانے والی سطور کے ایک ایک لفظ کو بھی اسی بندش کا پابند بنانے پر زور ہو گا لیکن پھر بھی کہیں ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے تو پیشگی معذرت۔
اپنے وطن عزیز پاکستان میں سیاسی اْفق پر لفظ ’’تماشہ‘‘ تو خیر بہت چھوٹی چیز ہے اگر اسے ’’سرکس‘‘ سے تعبیر کیا جائے جس میں طرح طرح کے سدھائے جانور اور رنگ برنگے جوکر ہی اصل کردار ہوتے ہیں پچھلے پچھہتر چھہتر سال سے اپنا رنگ جمائے ہوئے تو ہیں ہی لیکن پچھلے ایک ہفتہ سے اس محاذ پر جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اسے دیکھ کر اہل نظر اور اہل فکر کے سر شرم سے جھکے ہی نہیں بلکہ اس سکول آف تھاٹ کے لوگوں کے بقول’’ اِنّا لِلَہ و اِنّا اِلیہ رَاجعون‘‘کہنا ہی باقی رہ گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ویژنری طبقہ کی طرف سے اس ایک فقرہ میں اتنا بڑا (اندیشہ نہیں خدشہ نہیں بلکہ انجام) کا اظہار کیوں ؟
دنیا کے کسی بھی ملک کے سسٹم پر ایک نظر ڈالیں وہاں آپکو یا تو جمہوری نظام ملے گا یا پھر آمریت۔ ہمارے ملک کی کیا بدنصیبی رہی ؟ ایک طرف ہمارے ہاں جب بھی کوئی لولی لنگڑی نام نہاد جمہوری سیاسی حکومت کیلئے کوئی کوشش ہوئی تو کھیل کے کھلاڑیوں نے اپنے تسلیم شدہ اور مقرر کردہ سیاسی عمل یا پراسس سے طاقت حاصل کرنے کی بجائے یا تو آبپارہ اور راولپنڈی گیٹ نمبر 4 کی طرف دیکھا یا پھر شاہراہ دستور پر کھڑی ترازو والی ایک عمارت کے مکینوں کے آگے ذاتی روابط کی بنا پر اقتدار کی بھیک کیلئے جھولی پھیلائی۔ جبکہ دوسری طرف جب عسکری آمریت نے اقتدار پر شب خون مارا تو انھوں نے بھی آمریت کے prescribed سسٹم سے ہٹ کر اپنے اقتدار کو دوام اور طوالت بخشنے کیلئے سیاسی رنڈوؤں کو نہ صرف اپنی ٹیم میں شامل کیا بلکہ ڈکٹیٹرز اور ہیجڑوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلا ’’نہ تیتر نہ بٹیر‘‘۔
پولیٹیکل سائنس کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے راقم اتنا جانتا ہے کہ ملک ایسے نہیں چلتے۔ کہتے ہیں ملک سیاستدان چلاتے ہیں۔ سیاستدان کسے کہتے ہیں؟ حرف تہجی کے لحاظ سے لفظ سیاستدان کے ایک ایک حرف سے جْڑی حقیقت پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے ’’س‘‘ سے سچا، ’’ی‘‘ سے یار، ’’الف‘‘ سے امین، ’’س‘‘ سے سلجھا ہوا، ’’ت‘‘ تعلقدار، ’’د‘‘ سے دانا، دیانتدار ، ’’الف‘‘ سے اعتدال پسند اور ’’ن‘‘ سے ناصح یعنی کہ ایسا شخص جو سمجھدار ہو، اعتباری ہو، سلجھا ہو، تعلق دار ہو، اعتدال پسند ہو اور ناصح ہو وہ سیاستدان کہلانے کا حقدار ہوتا ہے۔
اب آئیے اپنے نظام کی طرف یہاں کے سیاستدان کی صفات حرف تہجی کے لحاظ سے دیکھیں تو ’’س‘‘ سے سرمایہ کار، ’’ی‘‘ سے یارمار، ’’س‘‘ سے سنگ دل، ’’ت‘‘ سے تھڑے باز، ’’د‘‘ سے دوغلا، دغا باز، ’’الف‘‘ سے اداکار، ’’ن‘‘ سے ننگا، نکما، پھر جب ایسی حقیقتیں آپکا منہ چڑا رہی ہوں تو بلاشبہ وہی کچھ ہونا تھا اور ہونا چاہیئے بھی تھا جو پچھلے ایک ہفتے سے اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا۔
عمومی عوامی رائے پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اب یہ بات ایک طے شدہ حقیقت لگتی ہے جسے راقم کی دانست میں اب تسلیم شدہ حقیقت مان لینا چاہیئے کہ اس ملک میں بگاڑ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب یہ ملک معرض وجود میں آیا کیونکہ جیسے ہی اسکا قیام عمل میں آیا اس وقت قائداعظم وہ واحد اکائی تھے جو اس قوم کو لیکر چلے تھے۔ انکی خرابی صحت اْن انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی کہ عملی طور پر انکی انتظامی دسترس بہت کمزور پڑ چکی تھی جسکے ساتھ ہی پاور سٹرگل کا گھناؤنا کھیل شروع ہو گیا اور کچھ سیاستدانوں نے اقتدار کے حصول کیلئے پاور کوریڈورز کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور یوں ریاستی اداروں کو تجویز کردہ آئینی اختیارات سے تجاوز کر کے انتظامی اختیارات میں شراکت داری کا چسکا پڑ گیا۔ بدقسمتی اگر انہی دروازوں کے اندر محدود رہتی تو پھر بھی شائد وہ تباہی ہمارا مقدر نہ بنتی جسکا آجکل ہر کوئی رونا رو رہا ہے، اصل سانحہ تو اب شروع ہوا کہ پہلے تو کچھ ریاستی اداروں کا حکومت سازی اور حکومتی امور میں دخل اندازی کا شور تھا اب تو قہر خدا کا ریاستی ادارے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں جسکی عملی تصویر اب سب پر عیاں ہو چکی اور اس سے ایک قدم اور آگے ان اداروں کے اندر بھی شخصی بنیادوں پر بعض ایسے سرکشوں نے سر اْٹھانا شروع کر دیا ہے جن پر کچھ نہ ہی بولا جائے اور نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے لیکن سوال تو بنتا ہے ایسا کیوں اور اسکا کوئی حل؟۔