پاکستان میں ہمیشہ سجّی دکھا کر کھبی مارنے کا رواج ہے۔ جس بات پر جتنا زیادہ زور دے کر تردید کی جاتی ہے اس میں اتنی ہی حقیقت چھپی ہوتی ہے لیکن اسے ظاہر نہ کرنے کے لیے پرزور تردید کی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں جس روز اکثریت نہ ہونے کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی سینٹر منتخب ہو گئے تھے ہم نے کہہ دیا تھا کہ حکومت کے پاؤں تلے سے قالین کھینچنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی میاں نواز شریف کی جانب سے گوجرانوالہ جلسہ میں جو کچھ آرمی چیف جنرل باجوہ کے بارے میں کہا گیا اور اس پر کوئی ردعمل بھی ظاہر نہ ہوا اس سے بھی بہت سارے سوال اٹھنے لگے اور آخر کار پھر تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اس کا انجام سب کے سامنے آگیا۔ صورتحال اب بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
ہر طرف سوالات ہی سوالات ہیں لیکن اس کے خاطر خواہ جوابات سامنے نہیں آرہے۔ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہو گیا ہے جس نے کافی سارے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سب سے اہم سوال سپریم کورٹ کی آبزرویشن ہے جو تحریک انصاف کے موقف کو مضبوط بنا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن پر سوال اٹھایا ہے کہ وہ صاف شفاف انتخابات کروانے میں ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے معاملے میں خود فریق بنا ہوا ہے۔ حکومت بضد ہے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے باوجود مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں دی جا سکتیں کیونکہ الیکشن پروسیجر اسی طرح برقرار ہے کہ بغیر انتخابی نشان کے الیکشن جیتنے والا آزاد ہے اور اس پر ضروری ہے کہ وہ تین روز کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے۔
ساتھ ہی ساتھ وزیر قانون کا ارشاد ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔ اب بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اگر مخصوص نشستوں کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو توہین عدالت میں چیف الیکشن کمشنر اور وزیراعظم فارغ ہو سکتے ہیں۔ کیا چیف الیکشن کمشنر اور وزیراعظم یہ رسک لیں گے؟۔ عدالت کے اندر ججز کی تقسیم بھی واضح ہو چکی ہے حکومت عدلیہ پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کر رہی ہے وہ تاحال ناکام ہو رہی ہے۔ آئینی ترمیم والی بیل تو اب منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی لیکن صدارتی ترمیمی آرڈیننس پر بھی پھڈا پڑ چکا ہے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ بھی قریب آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے خلاف کیسز بھی آخری مراحل میں ہیں۔ ان کے کیا فیصلے آتے ہیں، الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے، پارلیمنٹ کیا سٹینڈ لیتی ہے، حکومت لڑائی میں آگے بڑھتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے۔
چند دنوں تک بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ جن کو پچھلے دو سالوں سے جلسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی ان کو اب اجازتیں مل رہی ہیں۔ حکومت عوامی دباؤ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی وزیر اعلی خیبر پختون خواہ وفاق اور تینوں صوبائی حکومتوں سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اتنا کچھ بولنے کے باوجود اگر اسے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انھیں کہیں سے آشیر باد حاصل ہے۔ بظاہر تمام معاملات لڑائی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ معاملات بند گلی میں داخل ہو گئے ہیں۔ ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ میرا خیال ہے کہ کہیں نہ کہیں اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ یہ معاملات ایسے نہیں چل سکتے۔ کسی کو پاکستان پر رحم آگیا ہے اور اب حالات کو نارملائز کرنے کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں سب کو پہلے اوقات یاد کروائی جائے گی اور پھر استحکام کی طرف بڑھا جائے گا۔ سیاستدان اپنی ڈاڑھیاں دوسروں کے ہاتھ میں پکڑا چکے ہیں اب دیکھیں کس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ عسکری اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے۔ اب جبکہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان لڑائی پچیدہ صورتحال اختیار کر رہی ہے اور پاکستان کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار اور زیادہ اہم ہو گیا ہے ایسے میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ ادارے میں نئی صف بندی ہو گی؟ کیا جاری پالیسی بھی تبدیل ہونے جا رہی ہے؟ کیا نئے سربراہ نیا ایجنڈا لے کر آ رہے ہیں؟نئے ٹارگٹ کیا ہو سکتے ہیں؟
٭…٭…٭