سوات مالم جبہ روڈ پر غیرملکی مہمان سفارتکاروں اور سرمایہ کاروں کے ایک قافلے پر جنونی دہشت گردوں نے حملہ کیا اور دنیا کو یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ پاکستان پرامن ملک نہیں ہے ۔ پشاور حکومت اگر چوکس ہوتی تو ایسا دلگداز سانحہ پیش نہ آتا جس میں چار پولیس اہلکار جان سے گذر گئے، مگر اسے تو اپنے سیاسی جلسے جلوسوں سے زیادہ دلچسپی ہے ۔
ایک مشہور قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بھی بچنے کی کوشش کر و۔یہ قول پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر صادق آتا ہے۔ افغانستان پر جب کبھی بھی بُرا وقت آیا، پاکستان نے بڑے بھائی کی طرح اس کا دامے درمے سخنے بھرپورتعاون کیا اور ساتھ دیا۔دنیا میں کسی اور اسلامی ملک نے اس طرح افغانستان کا خیال نہیں رکھا جس طرح پاکستان نے ایک طویل عرصے سے افغان مہاجرین کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔لیکن احسان فراموش افغانیوں نے پاکستان کو اس احسان کا بدلہ دہشت گردی،تخریب کاری اور مجرمانہ اقدام کی صورت میں چکایا ہے۔چاردہائیوں سے افغانیوں کی منشیات فروشی کے باعث پاکستان کی نوجوان نسل تباہ ہوئی۔اور پھر افغانی باشندوں کی تخریب کاری کے باعث پاکستا ن دو عشروں سے دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ہم ہر روز اپنے بے گناہ شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر عاجز آگئے ہیں،اور دہشت گردوں کے حملے رکنے کا نام نہیںلے رہے۔پاکستان میں آئے روز ہونے والے خود کش بم دھماکوں کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔اور یہ سب کچھ دنیا کی نظروں کے سامنے ہورہا ہے۔
جرمنی نے حال ہی میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے 28 افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا ہے۔ جرمنی کی طرف سے یہ اقدام سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے جرمنی کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، خاص طور پر حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد جن میں پناہ کے متلاشی افراد شامل ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان نے 40 سال سے زائد عرصے تک اپنے معاشی اور سیکیورٹی دبائو کا سامنا کرنے کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دے کر غیر معمولی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے جن میں سے بہت سے غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور دہشت گردی جیسا مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جرمنی کے موجودہ اقدامات کے برعکس، پاکستان نے افغان تارکین وطن کو کئی دہائیوں سے اپنے معاشرے میں رہنے اور انضمام کی اجازت دی ہے۔ 4 دہائیوں کے کھلے دروازوں کے بعد، پاکستان نے اب عزت اور احترام کو برقرار رکھتے ہوئے صرف غیر قانونی افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اولین مقصد اپنی آبادی کو منظم کرنااور تحفظ دینا ہے۔
جرمنی نے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیرحال ہی میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے 28 افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرکے اپنی سر زمین کو تخریب کا ر عناصر سے محفوظ کر لیا ہے۔نائن الیون کے بعد تقریباً 27 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان کے مختلف کیمپوں میں تھے۔’اتنی بڑی تعداد میں جب پناہ گزین موجود ہوں تو اُن کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی اور نہ ان کی نگرانی ممکن ہے ۔ پاکستان نے اسی لیے سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھااوراب پناہ گزینوں کو وطن واپس بھجوانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان بھی جرمنی کی طرح ان افغان تخریب کارپناہ گزینوں سے تنگ آکر باعزت طریقے سے ان کو ملک بدر کرکے پاک سرزمین کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کر رہاہے۔تاکہ تخریب کاری، دہشت گردی اور منشیات فروشی کی لعنت سے ملک وقوم کو محفوظ رکھا جا سکے۔
حکومتِ پاکستان نے گزشتہ برس ستمبر میں ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو 31 اکتوبر تک رضا کارانہ طور پر اپنے اپنے ملک واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ یہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد یکم نومبر سے ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی جاری ہے جو کسی قسم کی قابل قبول دستاویز نہیں رکھتے۔خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق اب تک دو لاکھ 23 ہزار سے زیادہ افغان شہری اپنے وطن واپس جا چکے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد ان افغان شہریوں کی ہے جو رضا کارانہ طور پر پر واپس گئے تاہم چند ایسے بھی ہیں جنھیں بعدازاں گرفتار کر کے ملک بدر کیا گیا۔محکمہ داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے اور پشاور کے مختلف تھانوں کی حدود سے 492 غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو پولیس نے حراست میں لے کر افغان سرحد پر بھیجا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 223503 افراد براستہ طورخم واپس اپنے وطن جا چکے ہیں جن میں 63157 مرد، 49397 خواتین اور 110948 بچے شامل ہیں۔
ایک طرف جہاں وفاقی حکومت دہشت گردوں کیخلاف کوشاں ہے تودوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت ایک طویل عرصے سے دہشت گردوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ عمران خان نے پاکستان کی جیلوں سے جو دہشت گرد رہا کئے اور افغانستان سے دہشت گردوں کوپاکستان آنے کی اجازت دی ،ا س کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیںاوردہشت گردی کا تقریباً کچلا جانے والا عفریت دوبارہ زندہ ہوتا نظر آرہا ہے ، گویا اس میں جان ہی پڑ گئی ہے ۔ دو روز قبل سوات میں پیش آنیوالا واقعہ اس کی کھلی مثال ہے۔اس طرح کی صورتحال میں صوبہ کیسے چلے گا؟21 ستمبر کے روز حالت یہ تھی کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں کوئی شخص موجود نہیں تھا، پشاور تک میں کوئی اعلیٰ سرکاری افسر نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ سب کو لیکر لاہور فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں نیب خیبر پختونخوا نے ایک بڑی کارروائی سے قومی خزانے کی 168.5 ارب روپے کی رقم کو بچاتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف آر بیٹریشن سے کنٹریکٹرز کا 31.5 ارب روپے کا دعویٰ خارج کرا دیا،بی آر ٹی پشاور کے کنٹریکٹ کے غیرقانونی ایوارڈ،سرکاری فنڈز میں خورد برد اور جعلی پرفارمنس گارنٹیز کی انکوائریزمیں گھپلے منظر عام پر آگئے جس کے بعد نیب تحقیقات میں کمپنیوں کے کاغذی معاہدوں کا پول کھل گیا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ غیرملکی کمپنیوں نے سرکاری ادارے کو دھوکا دے کر کوئی کام کیے بغیر تقریباً ایک ارب روپے وصول کیے۔نیب نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تمام کمپنیوں سے متعلق 400 سے زائد بینک اکائو نٹس کی چھان بین کی،نیب تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ لوکل کنٹریکٹرز نے معاہدہ حاصل کرنے کے لیے بوگس آڈٹ رپورٹس جمع کرائیں۔ تحقیقات کے دوران نیب نے غیرملکی کمپنیوں کو ان کے متعلقہ سفارت خانے کے ذریعے شاملِ تفتیش کیا۔ نیب تحقیقات کی وجہ سے پراجیکٹ کو اصلی لاگت پر مکمل کروا کر قومی خزانے کے 9ارب روپے بچالئے گئے ہیں، جو یقینا موجودہ دگرگوں معاشی صورتحال میں ایک بہت بڑا اقدام ہے اور کرپشن سے نبٹنے میں خیبرپختون خواہ حکومت کی ناکامی اور لاعلمی کا واضح ثبوت بھی ۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جس صوبے میں اس طرح کے مخدوش حالات ہوں، کیا وہاں کا وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ہی جیسا ہونا چاہئے۔؟ کیا خیبرپختونخوا کے عوام کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے بہتر مستقبل کیلئے ان کو ووٹ دیا۔۔۔؟ایک ایسا صوبہ جہاں لا قانونیت بڑھ رہی ہے، کیا وہاں پر مستقل وزیر داخلہ ہونا ضروری نہیں ہے۔؟ صوبے کے ہر شعبے میں کرپشن کے عفریت نے اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں، ایسے میں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نااہل حکومت کوئی بہتری اور تبدیلی لاسکتی ہے۔؟
ان حالات میں اس امر کی انتہائی اشد ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل جل کر صوبے میں مقیم غیر ملکی غیر قانونی شہریوں کی سرگرمیوں پر سختی سے نظر رکھیں اور اپنے اپنے وطن واپس بھجوانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا ۔ نیز نیشنل ایکشن پلان پر تمام جماعتوں نے دستخط کئے ہیں ، لہٰذا اس پر سختی سے عملدرآمد کے لئے اقدامات کرتے ہوئے صوبے سمیت ملک بھر کے عوام کو دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭
سوات میںدہشتگردی اور پشاور حکومت کا رویہ
Sep 25, 2024