مہنگائی کہاں ہوئی، کتنی ہوئی؟ یہ اعداد و شمار لگانا ادارہ شماریات کا پرانا گورکھ دھندا ہے۔ پاکستان بھی اُن ملکوں کی فہرست میں آتا ہے جس کے 80 فی صد عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں افغانستان، پاکستان، بھارت، سری لنکا اور نیپال شامل ہیں۔ معیشت دانوں کے نزدیک وہی حکومتیں دوام پاتی ہیں جو مہنگائی کو قابو کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ پذیرائی بھی انہی حکومتوں کو ملتی ہے جن کے بہتر اور راست اقدامات ہوتے ہیں۔
موجودہ حکومت کا منشور ہمارے سامنے بالکل واضح ہے۔ میاں شہباز شریف نے عنان اقتدار سنبھالنے سے قبل پارٹی منشور کے مطابق جو وعدے کئے، ابتلاء کے ان بدترین ایام میں انہیں پوراکرنا مشکل تھا ایسے میں جب مہنگائی ہر جانب سر اٹھائے ہوئے ہے، بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔خوردونوش کی قیمتیں قابو میں نہیں آ رہیں اور اس پر ظلم یہ کہ جہاں ملک میں آئی ایم ایف کی تلوار بھی لٹک رہی ہو وہاں ایسے حالات میں حکومت میں آنا، حکومتی باگ ڈور سنبھالنا آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف تھا۔ لیکن میاں محمد شہباز شریف نے یہ کڑا چیلنج قبول کیا۔ اقتدار کے پہلے ہی دن سے ملک سنوانے لگ گئے۔ جس کی حالت ایک جماعت کے گزشتہ چار سالہ دور اقتدار نے بہت زیادہ بگاڑ دی تھی۔
ملک کو ڈیفالٹ کا بھی شدید خطرہ تھا۔ بحرانی اور ہیجانی کیفیت ہر جانب پنجے گاڑئے ہوئے تھی۔ ایسے میں خود کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالنا کوئی اتنا سادا اور آسان کام نہیں تھا۔ لیکن میاں شہباز شریف نے موجودہ دورِ اقتدار سے پہلے کے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار کے مختصر عرصے میں اپنی معیشتی پالیسیوں کی بدولت ڈیفالٹ کے اس بڑے جن کو پچھاڑ دیا۔ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔ پاکستانی معیشت استحکام کے لیے اگلے سفر پر رواں دواں ہو گئی۔معیشت کا بین الاقوامی اصول ہے جو ملک ترقی کرتا ہے، خوشحال ہو جاتا ہے۔ غریب رعایا روزی روٹی کے چکر سے نکل آتی ہے۔ کاروبار چلنے لگتا ہے اور جب معیشت کا پہیہ چلنے لگے تو ملک کی دفاعی قوت بھی ناقابل تسخیر ہو جاتی ہے۔ قوم بھی بین الاقوامی برادری میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے اپنا مقام پاتی نظر آتی ہے۔
شہباز شریف حکومت نے فروری 2024ء میں عنان اقتدار سنبھالا۔ پرانے اتحادیوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ق لیگ ہی اس نئے سفر میں اُس کے ہمسفر ہوئے۔ ناراض ہو کر پی ٹی آئی چھوڑنے والے عبدالعلیم خان بھی اپنی نوزائیدہ جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کے ساتھ شہباز شریف سے آ ملے اور حکومتی اتحاد کا حصہ بن گئے۔ موجودہ حکومت پچھلے سات ماہ سے اقتدار میں ہے جبکہ بطور وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کا بڑا ہدف معیشت رہی ہے۔ کیا شہباز شریف معیشت سنبھالنے میں کامیاب رہے؟ بہت سارے مسائل میں گھرے پاکستان کا آج اسی تناظر میں ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔ کوشش ہو گی کہ تحریر کے اس پیرائے میں کسی لگی لپٹی کے بغیر پیش آمدہ معاشی و سیاسی حالات و معاملات کا جائزہ لے سکیں تاکہ ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد ملے۔
دیگر معاصرین کی طرح روز اول سے ہی میرا نقطہ نظر رہا ہے کہ جب تک ہماری سیاست میں استحکام نہیں آئے گا، معیشت نہیں سنبھلے گی اور ڈانواں ڈول رہے گی۔ گزشہ ایک دہائی سے چلنے والے اس سیاسی عدم استحکام اور اس میں پائے جانے والے خلفشار نے ہمیں سری لنکا جیسی معیشت اور اُس جیسے ڈیفالٹ کی پوزیشن تک پہنچا دیا تھا ۔ پی ٹی آئی کا پچھلا دور چلتا رہتا اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے نہ نکالے جاتے تو شاید ملک کی حالت اور بھی خراب اور ابتر ہو تی۔ ہم ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھے کہ شہباز شریف پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ برسر اقتدار آ گئے۔ اگرچہ اس حکومت کا دورانیہ صرف ڈیڑھ برس تھا لیکن شہبا ز شریف نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وہ مشکل ترین کام کر دکھایا جو پاکستان کی روز بروز بگڑتی معاشی صورت حال دیکھ کر مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی دکھائی دیتا تھا۔
کٹھن اور مشکل حالات میں صبر، استقامت اور حوصلے کے ساتھ کھڑے رہنے والے کو ہی لیڈر کہتے ہیں۔ ان مشکل حالات میں شہباز شریف نے ثابت کیا کہ وہ عزم مصمم کا اونچا پہاڑ ہیں۔ حوصلہ، استقامت ہو تو مشکل ترین راستوں کی سب دیواریں گِر جاتی ہیں۔تاریخ نے یہ سب ہوتے دیکھا یوں ملک پر آیا ایک مشکل دور گزر گیا۔ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ سب نے سکھ کا سانس لیا۔ معیشت دانوں نے اس کارنامے کا سہرا شہباز شریف اور اُن کی پی ڈی ایم حکومت کے سر باندھا۔
پاکستان کی سیاسی و معاشی تاریخ اب ایک نئے دور میں داخل ہے۔ عوام کی بہت زیادہ توقعات اور امیدیں ناصرف وفاقی حکومت بلکہ صوبائی حکومتوں سے بھی وابستہ ہیں۔ گزشتہ معاشی پالیسیوں کی بدولت ہم ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے مڈل اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے ’’ریلیف‘‘ کی باتیں کرنا سہانے خواب دکھانے کے مترادف لگتا تھا لیکن اب حکومت کے عملی اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ’’حکومتی ریلیف‘‘ بار آور ثابت ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے طور پر جو خصوصی اقدامات کر رہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن پنجاب میں ن لیگی وزیراعلیٰ مریم نواز کے اقدامات بھی قابل تعریف اور منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ بے اختیار اس پر پنجاب حکومت کو داد دینے کو جی کرتا ہے۔شاید ن لیگ کے سیاسی حریف مجھ سے اختلاف کریں۔ ناقدین بھی تنقید کے نشتر چلائیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مشکل ترین حالات میں مشکل فیصلے کرنا دل والوں کا ہی کام ہے۔ بڑے لیڈر ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
عوام کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ بے شمار سیاسی چیلنجز کے باوجود معاشی اہداف میں حکو مت کو بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ معاشی محاذ سے بھی اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر ایک خاص حد تک لے جانے اور بڑھانے کے لیے خطیر ڈالروں کی ضرورت تھی۔ ن لیگ کی حریف سیاسی جماعت نے اگرچہ بہت کوشش کی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام رک جائے۔ پاکستان کو معاشی نظام چلانے اور مستحکم کرنے کے لیے جو اربوں ڈالر کا قرضہ درکار ہے وہ نہ مل سکے۔ لیکن پی ٹی آئی کے سپنے اُس وقت چکنا چور ہو گئے جب آئی ایم ایف نے اپنے پہلے پروگرام کے بعد دوسرے پروگرام کا بھی اعلان کر دیا۔ امکان ہے بورڈ میٹنگ کے بعد پاکستان کو دئیے جانے والے 7ارب ڈالر کی منظور ی مل جائے گی۔ یہ خطیر رقم ملنے کے بعد ملک میں معیشت کے مزید بہتر اعشاریے دکھائی دیں گے۔
ریلیف کا سفر
Sep 25, 2024