بدھ ‘20 ربیع الاول 1446ھ ‘ 25 ستمبر 2024ء

اسرائیلی اخبار کے آرٹیکل میں میری تعریف کی گئی ہے‘کپتان۔
اسی لئے کہتے ہیں ،ایک چپ سو سْکھ، اس سے تو بہتر تھا خان جی چپ ہی رہتے۔کچھ تو بھرم رہ جاتا۔ہر بات کا جواب ضروری نہیں ہوتا وضاحت بھی گلے پڑ جاتی ہے۔ اب اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ اسرائیلی اخبار کے آرٹیکل میں کپتان کی تعریف کی گئی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ تعریف ہمیشہ اسی کی ہوتی ہے جو اچھا لگتا ہے۔ پیارا ہوتا ہے۔ دشمن کی نہیں کی جاتی۔ اب پاکستانی ہو یا مسلمان ان کو تو ویسے ہی اسرائیل دشمن سمجھتا ہے۔ اس پر یاد آیا ،آجکل وارث شاہ کا، جو دو رومانوی کردار ہیر اور رانجھا کے تخلیق کار ہیں، سالانہ میلہ بھی ہو رہا ہے۔ کون ہے جو ان دو کے مقابلے میں کیدو کی تعریف کرے۔ حالانکہ ہیر اور رانجھا تو سماج کے اصولوں کے خلاف چل رہے تھے اور یہی دونوں ہیرو بن گئے جبکہ چچا کیدو تو سماج ، معاشرے اور خاندان کے اصولوں کا چوکیدار تھا۔ اسے ولن بنادیا گیا ہے۔ کوئی اسکی تعریف نہیں کرتا۔ چوری چھپے عشق کرنے والوں کے مقابلے میں اس بے چارے کو آج بھی برا بھلا کہا جاتا ہے۔ تو جناب! بات کہاں چلی گئی‘ بات ہو رہی تھی اسرائیلی اخبار میں اڈیالہ جیل کے قیدی کی تعریف و توصف کی۔ اسرائیلی اخبار اور آرٹیکل لکھنے والے کبھی اس شخص کی تعریف نہیں کرینگے جو اسرائیل کیخلاف ہو یا اس کا دشمن ہو۔ البتہ جہاں بھی عرب و عجم میں انہیں کوئی اپنا حمایتی نظر آتا ہے‘ وہ اسکی تعریف میں رطب اللسان ضرور ہوتے ہیں۔
 اب خان جی کہتے ہیں آرٹیکل پڑھنے والوں کو انگریزی ہی نہیں آتی‘ اس لئے وہ سمجھ نہ سکے۔ خدا نہ کرے کہ کوئی بھی اسرائیل کی ایسی تعریف پر خوش ہو۔ ہاں جس کی ہو رہی ہو‘ اسکی بات علیحدہ ہے۔ اس کالم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے ممدوح اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں۔ کسی اور میں یہ کوالٹی نہیں۔ اگر وہ اس لئے ایسا نہیں کر پائے کہ پاکستانی فوج اس نظریہ کے خلاف ہے‘ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کبھی کسی محب وطن پاکستانی کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہاں البتہ پاکستان دشمن عناصر کو وہ اور ان کا میڈیا سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ اس لئے خان اور اسکے پیروکار اس تعریف پر خوش نہ ہوں بلکہ افسوس کریں تو بہتر ہے۔ 
٭…٭…٭
پشاور اسمبلی میں ثوبیہ شاہد کی تقریر کے دوران ہنگامہ۔
 خیبر پی کے میں ایک تو ویسے ہی سیاسی ٹمپریچر ہائی رہتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ بھی ہمہ وقت سیخ پا نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز جب پشاور میں اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس موقع پر جو کچھ ہوا‘ وہ تماشا سب نے دیکھا۔ اجلاس میں مسلم لیگی رکن اسمبلی ثوبیہ شاہد نے تقریر شروع کی تو حکومتی ارکان اسمبلی نے شور مچا مچا کر ان کا بولنا محال کر دیا۔ ثوبیہ شاہد نے لاہور جلسے کے حوالیسے جب پی ٹی آئی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا کہ جلسے میں بڑے بڑے نامی گرامی رہنمائوں کی بڑھکوں کے باوجود شریک نہ ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایوان مشتعل ہو گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے شور شرابا کے دباؤ میں آ کر ثوبیہ شاہد کا مائیک ہی بند کر دیا جس پر اپوزیشن ارکان بھڑک اٹھے اور جوابی نعرے بازی شروع کر دی۔ لیگی رکن نے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ جلسہ 2 بجے شروع ہونا تھا اور آپ تمام تر لاؤ لشکر کے ساتھ 3 بجے لاہور روانہ ہوئے تو اس وقت پہنچے جب جلسہ ختم ہو چکا تھا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ اب محترمہ کے بیان سے تو لگتا ہے واقعی بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی پہلوان جلسے سے پہلو بچا کر نکل گئے۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور جب آئے تو غصے میں اسلحہ اٹھا کر گاڑی کے شیشے توڑ ڈالے۔ یہ ’’میں اپنی شکست کی آواز ہوں‘‘ کا عملی اظہار تھا۔ شاید یہ سب کچھ کہیں جلسے کے انعقاد کیلئے شرائط پر عمل کا حصہ تو نہیں تھا۔ جس پر عمل کرکے آئندہ بھی پرامن جلسوں کی راہ ہموار کردی گئی ہے۔ اب 28 ستمبر کو میانوالی میں جلسے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جس کیلئے لاہور کے پرامن جلسے کا حوالہ دیکر اجازت ملنے میں آسانی رہے گی۔ 
٭…٭…٭
حکومت کا آئی پی پیز کو انتباہی نوٹس۔
یہ آئی پی پیز والے مفت کا منافع کما کر اب اتنے بدمست ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے منہ کو آنے لگے ہیں۔ کیا یہ کمال کی بات نہیں کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں‘ حکومت ان کو ہر ماہ مقررہ قیمت ادا کرتی ہے جو نااہل حکمرانوں کی وجہ سے طے ہوئی ہے۔۔ یوں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی‘ رنگ بھی چوکھا آئے۔ من مانی کے باوجود انہیں چلو حکومت پر نہ سہی‘ ان مظلوم لوگوں پر ہی ترس آنا چاہیے تھا جن کا خون نچوڑ کر یہ ہر سال اربوں روپے وصول کرتے ہیں۔ اب تک صرف دو آئی پی پیز نے رحم کھاتے ہوئے ریٹ میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ باقی نے تو عوام کی چیخ و پکار پر بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ اب لگتا ہے حکومت کو خیال آ گیا ہے کہ وہ ان جونکوں کو مزید خون نچوڑنے سے روکے ورنہ انکی اپنی حکمرانی برقرار نہیں رہ پائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس حد تک ان خونخوار کمپنیوں کو اپنے ریٹس کم کرنے پر آمادہ کر پاتی ہے۔ ورنہ ان نجی بجلی گھر مالکان کے تو تیور ہی کچھ اور ہیں۔ وہ تو عالمی عدالت میں جانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں جس کے بعد حکومت نے سخت رویہ اپنایا ہے اور نجی کمپنیوں کو معاہدہ ختم کرنے کا بھی کہہ دیا ہے۔۔
٭…٭…٭
یہ میرا آخری الیکشن ہے‘ جیت کر دکھائوں گا‘ ٹرمپ۔
اگر امریکی صدارتی امیدوار سابق صدر ٹرمپ یہ بات نہ بھی کہتے تو سب جانتے ہیں کہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں‘ جہاں غالب نے بھی فرمایا تھا:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
حضرت غالب بے چارے ٹھہرے شاعر‘ انکی تو یہی دنیا تھی مگر ٹرمپ تو پکے سیاست دان ہیں‘ سپرپاور امریکہ کے صدر بھی رہ چکے ہیں‘ وہ صرف ساغر و مینا پر رکنے والے نہیں۔ انکی تو اب بھی وائٹ ہائوس پر نظر ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں کے مکین کو ساغر و مینا کی ضرورت نہیں رہتی۔ اقتدار کا نشہ تو ہوتا ہی ایسا ہے کہ ایک بار چڑھ جائے تو اترتا نہیں۔ لوگ لیلائے اقتدار کیلئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ جب جان ہی نہیں رہے گی تو یہ تاج و تخت کس کام کے۔ مگر حریص انسان اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ چند روز قبل امریکی نیوز ادارے سی این این نے ٹرمپ اور کمیلا کو صدارتی الیکشن مباحثہ کیلئے دعوت دی جو کمیلا نے تو مان لی مگر ٹرمپ نے شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ اب بات تو یہ ہے کہ مقابلہ سخت لگتا ہے۔ ہاتھی کا پائوں بہت بھاری ہوتا ہے تو گدھے کی دولتی بھی زبردست ہوتی ہے۔
 دیکھتے ہیں الیکشن والے دن کس کا زور چلتا ہے۔ ٹرمپ اس حوالے سے پرامید ہیں کہ امریکی عوام روایتی طور پر ان جیسے کائوبوائے صدر کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔۔ اب ویسے بھی ٹرمپ عمر کے اس حصے میں ہیں جس کے بعد شاید ہی وہ آئندہ صدارتی الیکشن لڑ سکیں جبھی تو کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہوگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسکے بعد وہ بھی موجودہ عمررسیدہ صدر جوبائنڈن کی طرح بھولے بادشاہ یعنی درشنی صدر ہی بن سکتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن