خود کفالت اور خود انحصاری یہ بظاہر دو لفظ ہیں لیکن ان لفظوں کے پیچھے انسانی حمیت و غیرت اور خود اعتمادی کا وہ طوفان چھپا ہوا ہے جسے اگر بروئے کار لایا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ملکی معیشت کے اندر ایک انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے میں نے بحیثیت وزیر صنعت چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشن کے پروگرام کو نہایت ہی گہری نگاہ اور داخلی بصیرت کی روشنی میں سمجھنے اور اسے قابل عمل بنانے کے لیے اب تک جو کچھ کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ قابل ستائش ہے چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشن گھریلو صنعتوں کو سہارا دینے اور ان گمنام لیکن محترم اور ملک کے محسنوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ایک تحریک ہے ہمارے یہ ہنر مند جن کو قدرت نے صبر و رضا قناعت و محنت کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے نہ جانے کن حالات میں گمنامی کے اتھاہ اندھیروں میں اپنی جدوجہد کے ذریعے عزم کی روشنی پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں میں گلی کوچوں دور افتادہ دیہاتوں اور بے اب و گیاہ وادیوں کے ان بے نام قصبوں میں ہاتھ سے کام کرنے والے اللہ کے دوستوں کو سلام پیش کرتا ہوں جن کی دستکاریوں کے اچھوتے اور نادر نمونے صاحبان ذوق سے داد و تحسین وصول کر رہے ہیں چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشن گھریلو صنعتوں کے نام سے ہنر مندوں کو پیام حیات دیتی چلی ارہی ہے اس کارپوریشن کے پیش نظر نہ تو روپیہ کمانا ہے نہ ہی ایسی تاجرانہ زئنیت رکھنے والا یہ ادارہ ہے جو لوگوں کی محنت اور ان کی ذہنی کاوشوں کو سستے داموں خرید کر بیرون ملک گراں قدر بیچ کر دولت جمع کرے اس کارپوریشن کے قیام کا مقصد صرف یہ تھا اور ہے کہ پاکستان کے دستکاروں کی تخلیقات کو اگے بڑھنے اور ان کے شہ پاروں کو لوگوں کی نگاہ میں لائق تحسین بنانے کا کارنامہ سر انجام دیا جائے میں سمجھتا ہوں چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشن اس میں بے حد کامیاب و کامران ہے یہ الفاظ اس ہستی کے ہیں جو پنجاب کے وزیراعلی کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہی اور اس سے پہلے وزیر صنعت کے حوالے سے چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشن کے جسم میں روح پھونک دی تھی اپ نے ہنر مندوں دستکاروں اور مادے کو روح کے قالب میں ڈھالنے والے یقینا ان لوگوں تھے کسی طرح کم تر نہیں ہیں جو بڑے بڑے تجرباتی اداروں میں بیٹھ کر فارمولے ایجاد کرتے ہیں لیکن لائق تحسین تو یہ امر ہے کہ میرے ملک کا دستکار ہنر مند ناپختہ مکانوں اور انسانی رہائش کے ناقابل گلی محلوں میں بیٹھ کر اپنی فکر کی قندیلوں کو روشن رکھے ہوئے ہے جن کا ذکر کر کے درویش وزیراعلی غلام حیدر وائیں شہید روحانی مسرت محسوس کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ مادے کو لطافت کے قالب میں ڈھالنے والے ان لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں جو بڑے بڑے تجرباتی اداروں میں بیٹھ کر فارمولے ایجاد کرتے ہیں لیکن لائق تحسین تو یہ عمل ہے کہ میرے ملک کا دستکار ہنر مند نا پختہ مکانوں اور انسانی رہائش کے ناقابل گلی محلوں میں بیٹھ کر اپنی فکر کی قندیلوں کو روشن رکھے ہوئے ہے اور جس کی ذہنی کاوشیں نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کی نمائش گاہوں اور بازاروں میں پاکستان کے خاموش سفیروں کا کردار ادا کر رہی ہیں شہید غلام حیدر وائیں کی قیادت میں کارپوریشن نے خود کفالت اور خود انصاری کے روشن اور تابناک اصول کے تحت ملک میں حیرت انگیز انقلاب افریں چلائی تھی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا کیا تھا اور یہ غلام حیدر وائیں شہید کا قول تھا کہ یہ ساری ذمہ داری حکومت کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ان کا یہ فرض بھی ہے اور اس فرض کی انجام دہی کے لیے اگاہی کے لیے پنجاب کے ہر بڑے شہر میں ایسے ہی سیمینار کا انعقاد ضروری ہے۔ غلام حیدر وائیں شہید کہا کرتے تھے کہ میری طرف سے خود انحصاری کا پیغام ہی نہیں بلکہ اس گھٹن کے دور میں تازہ ہوا کا نرم و سرد جھونکا ہے غلام حیدر وائیں کی خواہش تھی کہ جلد از جلد ملک کی صنعت تجارت زراعت اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے قابل بنایا جائے راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے ان تمام سیمینارز کی نقابت کے فرائض ادا کیے عوامی وزیر اعلی درویش میاں غلام حیدر وائیں شہید عوام کی خوشحالی اور ان کی اطمینان افروز صبح کے طلوع ہونے کی ارزو کی جستجو میں رہے انصاف روزگار ضروریات زندگی اور عزت و وقار عوام کی دلہیز پر پہنچانے میں اپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اپ کے قرطاس اعزاز پر شاندار کارناموں کی ایک طویل فہرست موجود ہے اپ بطور وزیر صنعت وزیر تجارت وزیر تعلیم اور وزیراعلی پنجاب مختصر مدت کے دوران آپ نے باب پاکستان جو ہجرت کا پہلا پڑاو تھا اور تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں کے لیے سالانہ گولڈ میڈل کی تقسیم کا ادارہ قائم کیا بھل صفائی کا نظام 1992 پنجاب بورڈ اف ٹیکنیکل ایجوکیشن کا قیام بہار کالونیوں کا قیام سعودی حکومت کے تعاون سے بنگلہ دیش سے آنے والے بہاریوں کی رہائشی کالونیاں۔ میاں چنوں کی بہار کالونی انہی میں آتی ہے سمال انڈسٹریز چھوٹے پیمانے پر صنعتی یونٹ کا قیام تاکہ روزگار میں اضافہ ہو لیبر کالونیوں کا قیام 1992 انڈسٹریز میں کام کرنے والے مزدور طبقہ کے لیے رہائش ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام۔ نیا نہری نظام میاں چنوں 15 ایل کی نہر مثالی طور پر بنوائی جسے ماڈل کے طور پر دنیا اج بھی دیکھ رہی ہے بلدیاتی نظام کی تشکیل لاہور پریس کلب کا قیام چاروں صوبوں میں پانی کی تقسیم کا تاریخی معاہدہ 1991 آبپاشی کے تمام کھالوں کو پختہ بنایا گیا جناح کالونیوں کا قیام میرٹ سسٹم کا آغاز اور اس کا نفاذ نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور کا قیام ایوان قائد اعظم لاہور جسے زمین خرید کر دی گئی بیت المال کا قیام جہیز فنڈز میڈیکل فنڈز شہروں کے لیے تین مرلہ سکیم دیہاتوں میں سات مرلہ سکیم ہر گاؤں یا دیہات میں پرائمری سکول بوائز گرلز ہیلتھ سینٹر کا قیام لیز ریلیونگ زمین کا اجرا تحصیل میاں چنوں میں مرکزی انجمن اسلامیہ کی بنیاد اپنے ساتھیوں کی مدد سے 1953 میں رکھی گئی اور وہ ادارے جو گزشتہ 65 سال سے عوام الناس کو زیور تعلیم سے اراستہ کر رہے ہیں مدرسہ دارالعلوم غوثیہ و ہاسٹل میاں چنوں کا قیام غوثیہ مسجد میاں چنوں عید گاہ اسٹیشن کے پار میاں چنوں فاطمہ جناح ہاسٹل جناح جونیئر ماڈل مڈل سکول میاں چنوں فیصل ٹاؤن معین الاسلام ٹیکنیکل فار بوائز میاں چنوں پولی ٹیکنیکل کالج برائے خواتین موسی ورک۔ ایگرو ٹیکنیکل کالج برائے خواتین موسی ورک۔ انڈسٹریل ٹرینگ سنٹر برائے خواتین موسی ورک۔ انڈسٹریل ٹریننگ سینٹر برائے خواتین میاں چنوں انجمن اسلامیہ ہیڈ افس مسلم لیگ چوک میاں چنوں مسجد قبا میاں چنوں اسلامیہ ڈگری کالج برائے خواتین میاں چنوں اسلامیہ گرل ہائی سکول میاں چنوں کمیونٹی سینٹر اور کمونٹی ہال میاں چنوں انجمن اسلامیہ ہسپتال محلہ عیدگاہ میاں چنوں انجمن اسلامیہ شوروم میاں چنوں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی زندگی 60 70 80 سو سال ہے وہ اگر ہزاروں سال زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہزاروں سال زندہ رہنے والے کام کر جائیں اور یہ دیکھ لیں غلام حیدر وائیں شہید کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ مر گئے ہیں وہ زندہ ہیں اور وہ اپنے زندہ جاوید کارناموں کی بدولت صبح قیامت تک زندہ رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت ان کے نام کو انسانی حافظوں سے بیو نہ کر پائے گی اور یہ دوام کس کی بدولت ہے کہ وہ انہوں نے انسانی خدمت کی اور انے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شداب کیا مر کر بھی کہاں مرتے ہیں تجھ جیسے قلندر محمد کے ثناگر تو زندہ رہے گا
عربی زبان میں افتاب مونث ہے اور مہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کے اس کا کام بولتا ہے غلام حیدر وائیں شہید کی بیٹی محترمہ غزالہ وائیں کا کام بول رہا ہے اور شہید کے قائم کیے ہوئے اداروں کی وہ نگرانی کر رہی ہے۔ محسن نقوی نے کہا تھا کہ
عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے