خبر لیجو ”پھر“ دہن بگڑا

رفیق غوری ۔۔۔
یوں تو جسے دیکھیں اے این پی میں ہر کوئی باون گز کا ہی بننے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس پارٹی کے سنیٹر حاجی عدیل آج کل اپنا بالشتیا پن کچھ زیادہ ہی دکھا رہے ہیں۔ وہ پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنے آپ کو اور اپنی ان حرکتوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ان کی اصل ہر کسی کے علم میں آ جائے۔یہ پاکستان میں عزت و اقتدار کے مزے لوٹنے والے جب بھی بات کرتے ہیں بدبودار ہی کرتے ہیں۔ ان بیچاروں کو شاید اللہ نے توفیق ہی نہیں دی کہ پاکستان کی عظمت کا اعتراف کر لیں کہ اعتراف عظمت کے لئے باعظمت ہونا بھی تو ضروری ہوتا ہے خاں عبدالغفار خاں جو جوانی میں انگریز فوج میں بھرتی ہوئے اور راشن کی کمتی ہونے کی شکایت پر لڑائی جھگڑا کرکے برطانوی فوج سے نکل کر سیاست میں آ گئے اور پھر خدائی فوج دار بن گئے اور پھر ساری زندگی جس طرح کی سیاست کی موصوف کے جیسے جیسے لچھن رہے اس پر ان سطور میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بادشاہ خان (باچا خاں) کی شاہی طبیعت سے ہر کوئی آگاہ ہے یہ موصوف ہی تو ہیں جنہیں ان کے حقیقی بھائی ڈاکٹر خاں صاحب نے وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان کی حیثیت میں نظربند اور پشاور بدر کیا تھا۔ خاں صاحب ساری زندگی دربدر پھرتے رہے کسی کل قرار نہ آیا۔ قیام پاکستان کے وقت خاں صاحب مولانا ابوالکلام آزاد کے پاس دہلی چلے گئے اور بین کرکرکے کہنے لگے کہ ”آپ لوگ پاکستان بنا کر ہمیں بھیڑیوں کے حوالے کر رہے ہیں“غفار خاں نے ہم پاکستانیوں کے بزرگوں کو بھیڑیا کہا تو شاید اپنے آپ کو مکار لومڑی ہی سمجھا ہو گا! خیر مولانا آزاد نے موصوف کی ایک نہ سنی اور پاکستان میں جانے کا حکم دے دیا۔ قیام پاکستان کے موقع پر رسم دنیا کے مطابق پاکستانی پرچم کو سلامی نہ دینے والے غفار خاں ساری زندگی جو کچھ کہتے رہے‘ اس سب کچھ کا ذکر ہم یہاں زیادہ تفصیل سے کرنے سے قاصر ہیں۔ اس خاندان نے اور اس کے حامیوں نے جو جو کچھ کہا جو جو کچھ کیا وہ بھی لمبی کہانی ہے مگر روادار اور فراخ دل پاکستانی قوم نے اس خاندان اور اس کے حامیوں کو قومی دھارے میں لانے کی بڑی کوشش کی کئی مرتبہ ان لوگوں کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں لا کر قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی مگر ان مردہ دلوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے کفن پھاڑ کر اس سے نکل کر واہی تباہی بکنا شروع کر دی اب بھی سنیٹر حاجی عدیل نے اپنے پرکھوں کی طرح ہی کہا ہے چونکہ نقلِ کفر کفر کے زمرے میں نہیں آتا اس لئے موصوف کے خیالات کو ایک مرتبہ پھر قارئین کے لئے مجبوراً نقل کر رہے ہیں۔ ”فرماتے ہیں“ کہ ”ہمارا رہنما محمد بن قاسم نہیں بلکہ راجا داہر ہے“اس حاجی عدیل کے منہ میں بھی اے این پی کے نام نہاد سیکولرازم اور اکھنڈ بھارت کی زبان ایک مرتبہ پھر بولی ہے۔ حرکت میں آئی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ موصوف اپنے بڑے عبدالغفار خاں کی طرح پاک سرزمین سے کوچ کرکے راجا داہر کے ماننے والوں کے ہاں چلے جائیں کہ جس ملک کے دو قومی نظریہ کی پاسداری کا انہیں احساس نہیں۔ اس ملک میں رہنا‘ آزادی کے مزے لوٹنا اور ایوانِ بالا سے فائدے اٹھانا انہیں کچھ زیب نہیں دیتا بس یہاں سے جانے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ عبدالغفار خاں کو بھی اس کی خواہش کے مطابق افغانستان میں ہی دفن کیا گیا تھا مگر اب موصوف کی قبر موجود ہے؟ محفوظ ہے؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حاجی عدیل اور ان کے دوسرے ہمنوا وہاں جا نہیں سکتے۔ وہاں رہ نہیں سکتے! خیبر پختونخواہ تو بن گیا مگر پختونستان نہ بن سکا ہے نہ بن پائے گا۔ اس پارٹی نے قیام پاکستان کے موقع پر ریفرنڈم بھی کروایا تھا اور جو نتائج نکلے تھے اس سے بھی ان کی مبلغ حیثیت کا پتہ چل گیا تھا ہم تو یہی کہیں گے کہ ”رسی جل گئی بل نہ گیا“ حالانکہ جب ریفرنڈم میں شکست ہو گئی پاکستان میں اپنے صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے ان کی حکومت نے اپنے حقیقی بھائی غفار خاں کو برداشت نہ کیا تو پھر اس کے پیاروں کو بھی تو اپنی اداﺅں پر غور کرنا چاہئے۔ ٹھیک ہے ہم خوار ہیں‘ بدکار ہیں آقا کی امت ہیں۔ فرعون‘ نمرود‘ راجا داہر کے حامی نہیں ہیں اس کے طرفداروں کو جتنا برداشت کیا جائے وہ پاکستانیوں کی فراخ دلی ہے۔ یہ لوگ قلابازی کھانے اور کہہ مکرنیوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ولی خاں نے بھی قرارداد پاکستان کے بارے میں نئی نئی کہانیاں گھڑنے لگے تھے راقم نے بھی اس کے جواب میں پہلے ہفت روزہ چٹان میں تین اقساط میں اس کا جواب دیا اور پھر پاکستان کس طرح بنا؟ کے حوالے سے ایک کتاب ”جب پاکستان بن رہا تھا“ کا مسودہ بڑے خاں صاحب کو ارسال کر دیا تھا کہ موصوف اپنے اعتراضات تحریری شکل میں اپنے دعوﺅں کی روشنی میں ثبوت کے ساتھ لائیں مگر خاں صاحب ”پھوکے خاں صاحب“ بن کر ٹائیں ٹائیں فش ہو گئے تھے۔ بے شک پارلیمنٹ نے خیبر پختونخواہ کا نام منظور کر لیا ہے اس کے باوجود راجا داہر اور فرعون و نمرود کے ساتھ اپنے ناطے جوڑنے والے اپنی بوجاہلی سے باز نہیں آ رہے عبدالغفار خان کو تو بھارت میں جا کر آنجہانی اندرا گاندھی سے زرِنقد کی پوٹلی بھی مل گئی تھی موصوف نے یہ خدمت وصول بھی کر لی تھی مگر یونس خاں اور اس کی اولاد کو بھارت میں رہنے کے باوجود کچھ نہ ملا وہ کبھی بھارت کے صدر بننے کی خواہش کرتے تھے‘ لبرل ایسے ہو گئے تھے کہ اپنی بیٹیوں کے بیاہ سکھوں‘ ہندوﺅں سے رچا دئیے مگر پھر بھی وہاں سے خدمت کا معاوضہ نہیں ملا۔ خیبر پختونخواہ بنا جن حالات میں نام رکھا گیا مختصراً یہ کہتے ہیں کہ ہم اور سرخ پوش نہیں ہیں اس کے باوجود کافی پاکستانیوں نے اپنی جانیں دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم دو قومی نظریہ کا ہر حال میں تحفظ کریں گے یہ نہیں کہ غفار خاں کے پوتے کی طرح ایوان صدر کے تحفظ میں اپنی زندگی کے دن پورے کریں۔ آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ بانی پاکستان نے جن کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”ان سے خیر کی توقع نہیں ہے“ وزیراعظم پاکستان اور صدر پاکستان سے ان کے بارے میں فی الوقت یہی گزارش کافی ہے کہ
سپاں دے پتر متر نئیں ہوندے
بھاویں چولیاں ددھ پیائیے

ای پیپر دی نیشن