”چین اور مسئلہ کشمیر کا حل“

Apr 26, 2011

سفیر یاؤ جنگ
سابق جسٹس راجہ افراسیاب خان
جن لوگوں نے حال ہی میں”چین اور امریکہ“ دونوں کا یکے بعد دیگرے سفر کیا ہے اور ان ممالک کی معاشی اور اقتصادی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کا اندازہ اور خیال ہے کہ چین اگلے پانچ سال میں امریکہ کے قریب قریب صنعتی ترقی میں برابری کی سطح پر آجائیگا۔ آنےوالے دس سالوں میں چین امریکہ پر ہر لحاظ سے سبقت حاصل کر چکا ہو گا۔ یہ اندازہ کسی خوش فہمی کا ہرگز نتیجہ نہیں‘ بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ نے جس قدر ترقی کرنا تھی وہ کر چکا ہے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کو موجودہ آبادی ایک ارب پچیس کروڑ کے قریب ہے۔ چین کا ہر شہری اس ارادے سے کام کرتا ہے کہ اس نے ہر حالت میں چین کو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور معاشی قوت میں بدل دینا ہے۔
آج کا چین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کر چکا ہے۔ چین کے دیہات اور شہر جدت کا روپ دھار چکے ہیں۔ خوبصورت اور کشادہ سڑکوں کا سرزمین چین پر جال بچھا دیا گیا ہے۔ دنیا کے دیوہیکل پہاڑوں کو کاٹ کر چین کے میدانی علاقوں سے ملا دیا گیا ہے۔ چین کے پہاڑی علاقوں میں پانی کی فراہمی بلاشبہ موجودہ دور کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ پانی کی فراہمی سے چاول کی کاشت بھی پہاڑی علاقوں میں کی جا رہی ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی چین بلاشبہ امریکہ کے ساتھ برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
صنعتی لحاظ سے چینی مصنوعات نے دنیا کی تمام منڈیوں کو فتح کر رکھا ہے۔ چین کی بنی ہوئی اشیاءانتہائی دیدہ زیب اور سستی ہیں۔ شاہراہ قراقرم چینی مہارت کی ایک زندہ مثال ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ ان پہاڑوں سے انسانوں کا گزرنا ناممکن ہے۔ چینی اور پاکستانی سائنس دانوں نے ملکر شاہراہ قراقرم کے ناممکن کام کو ممکن بنا دیا ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پاکستان کے تمام شمالی علاقے صنعتی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب یہ تمام پہاڑی پسماندہ علاقے دیگر تمام ترقی یافتہ علاقوں کے برابر ہو جائینگے۔ چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت ہے۔ بھارت میں ”غربت‘ بے روزگاری“ اور ”جہالت“ نے گہری بنیادوں پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اگر دنیا میں ”غربت“ کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرنا مقصود ہو تو بھارت کے دیہات کو دیکھ لیا جائے ہر طرف آپکو گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر نظر آئینگے۔
”مچھر، مکھیاں اور آوارہ کتے اور بلیاں کثرت سے ملیں گے۔ بھارت میں گائیں اور بندر مقدس جانور تصور کئے جاتے ہیں۔ ان جانوروں نے شاہراہوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور باہر بندر ہی بندر نظر آتے ہیں بجلی اور ٹیلی فون کی ”تاریں“ بندروں کےلئے شاہراہوں کا کام دیتی ہیں۔ اکثرحادثات کا شکار ہونےوالے ہنومان دیوتاﺅں کی لاشیں کھمبوں اور بجلی کی تاروں کےساتھ لٹکی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ہندو کلچر میں دونوں جانور گائیں اور بندر مقدس مانے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کی پرستش کی جاتی ہے۔ گائے کا گوبر اور پیشاب دونوں مذہبی لحاظ سے ”تبرکات“ میں شامل ہیں۔ مسلمان گائے کا گوشت بڑی رغبت اور شوق سے کھاتے ہیں۔ ہندو پجاریوں کا لباس بھی بڑا مختصر سا ہوتا ہے گلے میں دھاگہ اور ٹانگوں میں لنگوٹ اکثر ہندو پجاری پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دریائے گنگا کا پانی ہندو قوم کےلئے اسی طرح مقدس مانا جاتا ہے جس طرح مسلمانوں کے ہاں”آب زم زم“ ہے۔ ہندو گوشت خور بہت کم ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر دالیں اور سبزیاں کھاتے ہیں۔ مسلمان اور ہندو آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور اسی طرح وہ ایک دوسرے کے گھروں میں بھی بہت ہی کم آتے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں کشمیر میں شادی بیاہ کے مواقع پر ہندو اور مسلمانوں کے ہاں راشن کا تبادلہ ہوتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے ہاتھوں کا تیار کردہ کھانا نہ کھاتے تھے۔ آپ کسی بھی لحاظ سے جائزہ لیں آپ کو مسلمان اور ہندو بالکل الگ تھلک آبادیوں میں بٹے ہوئے نظر آئینگے اس سلسلہ میں قائداعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ اقبال کی سوچ ہی درست نظر آتی ہے کہ ہندو اور مسلمان علیحدہ علیحدہ قوموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں اسی سوچ کا وجود ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ بھارت نے ابھی تک دل سے برصغیر کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا‘ یہی وجہ تھی کہ بھارت نے 1971ءمیں متحدہ پاکستان کو توڑنے میں خونیں جنگ کرنے سے بھی گریز نہ کیا تھا۔ قائداعظم کا پاکستان بلاشبہ ٹوٹ گیا تھا مگر ٹوٹا ہوا پاکستان بھی بھارت کا حصہ نہ بن سکا تھا۔ بنگلہ دیش مسلمانوں کا ملک ہے۔ بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کی سوچ اور طرز زندگی بالکل ایک جیسی ہے۔ یہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایک دن ضرور آنےوالا ہے جب دونوں بنگلہ دیش اور پاکستان ایک کنفیڈریشن کے بندھن میں بندھ جائینگے۔ دونوں ایک دوسرے کےلئے بھائی چارے اور محبت و پیار کے احساسات رکھتے ہیں۔
”دونوں کا خدا ایک“ ”دونوں کا رسول ایک“ ”دونوں کی الہامی کتاب قرآن ایک“ ”دونوں کا قبلہ ایک“ اور اس طرح ”دونوں کا مستقبل بھی ایک“نظر آتا ہے۔ دونوں کے دل اکٹھے دھڑکتے ہیں۔ کشمیر کے لوگ بھی یقینی طور پر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ کشمیری واضح طور پر 90فیصد کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ وہ پاکستان کےساتھ شامل ہونے کےلئے بروقت بے چین رہتے ہیں۔ جب بھی سلامتی کونسل کی متفقہ قرار دادوں کےمطابق رائے شماری کے ذریعہ کشمیر کے جھگڑے کا فیصلہ ہوا تو کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونگے۔ ”مجھے تو یہ سب کچھ نوشتہ دیوار نظر آتا ہے“ جو لوگ اس تاریخی سچائی اور حقیقت سے انکار کرینگے وہ تاریخ کی عدالت میں ضرور قصور وار ٹھہرائے جائینگے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے تمام تر سرچشمے سرزمین کشمیر سے ہی پھوٹتے ہیں۔ پاکستان آج کل پانی کے قحط کا بری طرح شکار بن چکا ہے۔ پاکستان کے لہلہاتے اور آباد کھیت اور میدان ویرانوں اور ریگستانوں کا نقشہ پیش کرینگے۔ اگر بھارت کا قبضہ کشمیر پر اسی طرح رہا تو پاکستان کی خوشحالی کے تمام منصوبے بیکار ثابت ہونگے ”پانی نہ ہو گا تو کچھ بھی نہ ہو گا“۔ پانی کی وجہ سے ہی اس کرہ ارض پر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ ہمارے حکمران بھارت کی چال بازیوں سے باخبر ہو جائیں اور آنےوالے مشکل حالات سے عہدہ برآ ہونے کےلئے تیار ہو جائیں اگر کشمیر بھارت کی غلامی سے آزاد ہونا ہے تو پاکستان کی آزادی اور ترقی کا آغاز بھی اسی وقت شروع ہو گا۔
میرا یہ ایمان ہے کہ جب چین دنیا کی اول درجے طاقت کی حیثیت سے سامنے آئےگا تو کشمیریوں کے ساتھ بھی انصاف ہو گا۔ تصویر کا دوسرا رخ کچھ لوگ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اگر چین ترقی کرتا تو اسی تناسب سے بھارت بھی ترقی کرتا چلا جائےگا۔ عالمی طاقتیں ترقی کی دوڑ میں”قدمے درمے سخنے“ بھارت کےساتھ ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ بھارت ترقی کرے تاکہ وہ چین کے سامنے ہر لحاظ سے کھڑا ہو سکے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ چین جب امریکہ کی جگہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے گا تو اسی وقت کشمیریوں کےساتھ بھی انصاف ہو گا۔ آنےوالے اوقات میں تائیوان بھی چین کےساتھ آملے گا۔ چین نہ صرف ہمارا ہمسایہ ملک ہے بلکہ وہ ہمارا ایک جانثار دوست بھی ہے جبکہ ”بھارت“ چین کے بالکل برعکس پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کےلئے تیار رہتا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ یہ اچھی طرح سے سمجھ لے کہ صنعتی اور اقتصادی میدانوںمیں طاقت ور پاکستان ہی اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھ سکے گا۔ ہم نے یقینی طور پر اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنی اقتصادی اور معاشی ترقی کو بھی ناقابل تسخیر بنانا ہی ہو گا۔ اسی میں ہماری زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ اس وقت میرے نزدیک پاکستان کے سب سے بڑے دشمن غربت، جہالت اور بے روزگاری ہیں۔ ہمیں ان کو جنگی بنیادوں پر ختم کرنا ہو گا۔
مزیدخبریں