برطانوی صحافی بیورلے نکلس اپنی کتاب ”فیصلہ¿ ہند“ (مطبوعہ 1944ءصفحہ 30) میں کروڑوں اچھوت عوام کے قائد ڈاکٹر امبیدکر اور ہندو برہمن کے میل جول کی تصویرکشی درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگر مغربی لباس میں ملبوس ڈاکٹر امبیدکر کسی ہندو برھمن کی دھوتی کو چھو جائے تو وہ فوراً قریب ترین باتھ روم میں جائے گا اور پلید ہونے کے خیال سے دیر تک اشنان اور پرارتھنا کرتا رہے گا۔ جاتی کے ہندو برہمن کےلئے مغربی تعلیم یافتہ ڈاکٹر امبیدکر بھوت، چنڈال اور راکھشس ہیں۔ جن کا وجود سرتا پا پلید اور نیچ ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر (06-12-1956 تا 14-04-1891) امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کی اعلیٰ ترین جامعات کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ غریب مگر ہونہار طالبعلم تھے اور ان کا دکن (جنوبی بھارت) کی فوجی مرہٹہ برادری سے تعلق تھا۔ ریاست برودہ کے گایکوارڈ Gaikward وظیفہ پر مغربی تعلیم حاصل کی۔ ہندوستان واپس آکر ریاست برودہ کے سیکرٹری دفاع مقرر ہوئے۔ مگر نواب برودہ کی کوشش کے باوجود کسی نے کرایے کا گھر دیا اور نہ کسی نے دفتر میں پانی پلایا۔ نائب قاصد بھی متعلقہ فائل دور سے سیکرٹری دفاع کی طرف پھینک دیتا ہے کیونکہ جاتی کا قاصد ڈاکٹر امبیدکر کو چھونے یا دیکھنے سے بھرشٹ ہوتا تھا۔ کیونکہ اچھوت ادیکھ unseeable اور اچھایا unshadowable بھی ہیں جن کا سایہ، لمس اور نظر یعنی چھونا اور دیکھنا ہندو برہمن کو پلید کر دیتا ہے۔ شودر اچھوت سے بہتر جانور ہے کیونکہ یہ Touchable Low Caste ہیں۔ جگجیوی رام شودر تھے۔ ان کی بیٹی لوک سبھا کی موجودہ سپیکر ہے۔ اس وقت بھارت میں اچھوت اقوام کا سرکاری نام اور شرح آبادی درج ذیل ہے۔ Sheduled castes 20% sehduled Trikes 10%, other backword classic 35% (sc/SI/OBC)
مندرجہ بالا شرح آبادی کی رُو سے چھوت اقوام بھارت کی کل آبادی کا 65% بنتے ہیں۔ اس 65% آبادی کا بے تاج لیڈر ڈاکٹر امبیدکر ہیں۔ جن کی تعظیم و تکریم کے حوالے سے کلدیپ نئیر لکھتے ہیں کہ دکن میں ڈاکٹر امبیدکر کی وہی حیثیت ہے جو شمالی بھارت میں مہاتما گاندھی کی ہے بلکہ گاندھی سے بھی زیادہ۔ امبیدکر اور گاندھی کے تعلقات کے بارے میں بیورلے نکلس لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر کہا کرتے تھے کہ ”گاندھی اچھوت اقوام کا موروثی اور ازلی دشمن ہے“ اچھوت اقوام کو سب سے زیادہ نقصان گاندھی نے پہنچایا ہے۔ گاندھی امن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ (ص 38)۔ جب نام نہاد مہاتما گاندھی قتل ہوا تو اس وقت ڈاکٹر امبیدکر بھارت کے وزیر قانون تھے۔ ڈاکٹر امبیدکر اپنی ہونے والی دوسری بیوی ڈاکٹر شاردا کو خط لکھتے ہیں کہ یہ دن خوشی کا دن ہے۔ آج بھارت کو ایک خودپسند، خودغرض، مکار، جھوٹے اور دھوکاباز دیوتا سے نجات مل گئی۔
اب کانگریس کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اور اس کی قیادت اپنی اصلاح کرے اور حقیقت پر مبنی فیصلے کرے۔ڈاکٹر امبیدکر کی لڑائی چومکھی تھی۔ وہ برصغیر میں آزاد اچھوت ریاست کے خواہاں تھے۔ ان کا بیان ہے کہ اچھوت اقوام ہندی مسلمانوں کی طرح ہندو برہمن سے مختلف اور علیحدہ ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اچھوتوں کی علیحدہ نشستیں ہندو برہمنیت کے خاتمہ کا آغاز ہے، ڈاکٹر امبیدکر کے دو اہداف تھے۔ وہ اپنی اقوام کےلئے آزاد ریاست اور انسانی مساوات پر استوار آفاقی مذہب اور ان دونوں اہداف کے حصول کےلئے ان کا طریقہ کار بھی واضح تھا۔ مذہب کے بارے میں ڈاکٹر امبیدکر کا موقف تھا کہ بدقسمتی سے وہ ہندو کلچر یعنی تہذیب و تمدن میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ہندو نہیں بلکہ ہندو مذہب کے دشمن ہیں اور بحیثیت ہندو نہیں مریں گے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے مذہب کے حوالے سے اپنی تحریروں اور تقریروں میں لکھا ہے کہ ہندو ازم مذہب نہیں بلکہ ذات پات، اونچ نیچ اور آریائی نسل پرستی کا بدترین نظام ہے۔ بدھ مت ہندوستانی یعنی مقامی مذہب ہے مگر ظالم اور مکار ہندو برہمن نسل پرستی کی نذر ہو گیا۔ سکھ مذہب بھی بدھ مت کی طرح ہندوستانی اور مقامی ہے۔ مگر ہندوستان میں ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ عیسائی مذہب غیرہندی اور غیرمقامی ہے۔ مگر ان کی آبادی تھوڑی ہے۔ اسلام غیرہندی اور غیرمقامی ہونے کے باوجود ہندوستان کا سب سے بڑا پھیلنے والا مذہب ہے۔ اگر اچھوت اقوام مسلمان ہو جائیں تو ان کو مذکورہ بالا دونوں اہداف فوری طور پر حاصل ہو جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
ڈاکٹر امبیدکر نے وفات سے ایک ماہ قبل یعنی نومبر 1956ءمیں بدھ مت قبول کر لیا۔ آزاد اچھوت ریاست کی جدوجہد اور قیام کےلئے مختلف عوامل کا ذکرکرتے ہوئے ڈاکٹر امبیدکر بیورلے نکلس ص 41,40کو بتاتے ہیں کہ ”ہندوستان کے ہر گاﺅں میں اچھوت اقوام اقلیت بنکر بکھرے ہوئے ہیں۔ میں اس منتشر اقلیت کو متحد کر کے اکثرت میں بدلنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ کام ہندو برہمن، (کانگرس وغیرہ) نہیں کرنے دے گا۔ لہٰذا میری برطانوی سرکار سے درخواست ہے کہ جب تک اچھوت عوام کے علیحدہ حقوق اور شناخت محفوظ نہ ہو جائیں۔ وہ ہندوستان چھوڑ کر نہ جاتے اگر اب نہ ہوا تو ہندی اچھوت اقوام کی بدبختی یورپ کے کسی بھی مظلوم اور پسماندہ عوام سے بدتر ہوگی۔“ (ص 41,40)
قائداعظم، علامہ اقبال اور مسلم لیگ ڈاکٹر امبیدکر کے فکر و نظر سے بخوبی آگاہ تھے۔ مسلم لیگ کی مذکورہ بالا قیادت کے تعاون سے اچھوت اقوام کو کمیونل ایوارڈ میں مسلمانوں کی طرح علیحدہ تشخص ملا۔ جس پر گاندھی اور کانگرس خوب سیخ پا ہوئئے کیونکہ اچھوتوں کی علیحدہ شناخت اور نمائندگی کے باعث ہندوستان میں ہندو اکثریتی قوم نہیں رہتی بلکہ خود اقلیت بنکر رہ جاتی ہے اور اس طرح ہندو برہمن کا ہندوانا یعنی ہندوستان میں رام راج نام نہاد جمہوری خواب پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ مسلم قیادت کی اچھوت اقوام کے ساتھ یکجہتی کے تناظر میں اچھوت لیڈر مسٹر منڈل نے اچھوت قومیتوں کی فیڈریشن (Sheduled Castes Federation) (SCF) کے جلسہ عام منعقدہ 25 اگست 1944ءبمقام کلکتہ عیسائی لیڈر جوشو افضل الدین کے درج ذیل الفاظ کا حوالہ دیا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر مسلمانوں نے اچھوتوں اور عیسائی اقلیتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ مسٹر گاندھی نے اس کی مخالفت کی (بڑی جوئی) کا زور لگانا یہانتک کہ مسٹر جناح کے چودہ نکات کو بھی قبول کرنے کی پیش کر دی۔ فقط اس شرط پر مسلمان ہریجنوں (اچھوتوں) کے جداگانہ حق انتخاب کے مطالبے کی مخالفت کریں۔ مگر عظیم مسلمانی قوم قابل داد ہے کہ انہوں نے ہریجنوں کے ساتھ بے وفای کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے دستخطوں سے منحرف نہ ہوئے۔ (تحریک پاکستان کے تاریخی خدوخال از پرویسر محمد منور ص 95، بحوالہ جے۔ ای۔ سنجانا کی کتاب Caste and Outcastes)
ڈاکٹر امبیدکر نے گاندھی سے پونا پیکٹ 1932ءکیا اور معاہدہ سے انحراف کیا مگر گاندھی کی بدعہدی کے باعث ڈاکٹر امبیدکر نے پونا پیکٹ کو ”عظیم غداری“ کا نام دیا۔ بعدازاں ڈاکٹر امبیدکر نے اپنے کڑوڑوں اچھوت قومیتوں کے اسلام قبول کرنے کا عندیا دیا جس پر گاندھی، کانگریس اور انگریز نے حیلے بہانے، دھمکی، دباﺅ اور لالچ کے ذریعے ڈاکٹر امبیدکر کو اسلام قبول کرنے سے روکے رکھا۔ ڈاکٹر امبیدکر ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اور حیثیت کو بخوبی جانتے ہیں اور مانتے تھے۔ لہٰذا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ مدارس (چنائی) 1945 میں اچھوت اور قابل قومیتوں کے قائدین نے مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ سیاسی جدوجہد کےلئے معاہدہ کیا جس کو تاریخ میں ”جناح، امبیدکر اور پیری یار سے سیاسی اتحاد“ کہا جاتا ہے۔ (بحوالہ ایس۔ کے۔ بسواس، فادر آف انڈین آئین) مسٹر جوگندر ناتھ منڈل مذکورہ معاہدہ کے تحت ہی آزاد پاکستان کے پہلے وزیر قانون بنے تھے جبکہ پاکستان کی آئین ساز کمیٹی کے سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی تھے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر امبیدکر آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون اور آئین ساز کمیٹی کے سربراہ تھے۔ ہندی مسلمانوں کے ساتھ بے وفائی اچھوت قائدین نے کی ہے، مسلمان قیادت نے نہیں کی۔
بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر امبیدکر نے 27 ستمبر 1951 کو نہرو کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ استعفیٰ کی وجوہات میں ڈاکٹر امبیدکر نے لکھا کہ کانگریس قیادت دوغلی ہے۔ وہ بھارت میں سیکولرازم اور جمہوریت کے فروغ سے زیادہ رام راج (ہندوانا) کے نفاذ کی حامی ہے۔ نہرو کی کشمیری پالیسی خطے میں امن کےلئے مہلک ہے۔ جو بالآخر بھارت کی آزادی اور خودمختاری کےلئے خطرہ بن جائے گی۔ کانگریس کی قیادت (نہرو وغیرہ) بھارت میں منوسمولی یعنی ہندومت کے ہزاروں سال پرانے ظالمانہ اور غیرانسانی قوانین کا من و عن آئینی اطلاق چاہتی ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے اچھوت قومیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھ کر ہندومت میں اصلاحات Hindu Code Bill پارلیمنٹ میں منظوری کےلئے پیش کیا جو کانگریس بالخصوص نہرو کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے منظور نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر امبیدکر کے استعفیٰ کی کئی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ ڈاکٹر امبیدکر نے بھارتی آئین کے رہنما اصولوں پر تاریخی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئین اس وقت تک اچھا ہے جب تک اس کے جلانے والے اچھے ہیں۔ برے حاکم اچھے آئین کو بھی برا بنا دیتے ہیں۔ کڑوڑوں اچھوت قومیتوں کو قومی ترقی و سلامتی کے دھارے میں لانے کےلئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی مساوات اور وسائل فراہم کئے جائیں۔ جس کےلئے ڈاکٹر امبیدکر نے سفارشات پیش کیں کہ آزاد بھارت کو شمالی اور جنوبی زونز (Zones) میں بانٹ دیا جائے۔
بھارتی عوام کی یکساں ترقی و بہبود کےلئے لازم ہے کہ بھارت کی دو قومی زبانیں اور دو دارالحکومت ہوں۔ وگرنہ مسائل ........ پیدا کریں گے۔ نیز ڈاکٹر امبیدکر نے کانگریس کی ہندو قیادت کو وارننگ دی تھی کہ اگر بھارت میں سیکولرازم کی جگہ رام راج اور ہندوانا کے نفاذ کی سرکاری سرپرستی کی گئی تو بھارت مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ بھارت ایک نظریاتی وحدت نہیں۔ جمہوری سیکولرازم نے بھارتی کو جغرافیائی وحدت بنا رکھا ہے۔ اچھوت قومیتوں کی ترقی و بہبود اور اقلیتوں کے تحفظ بھارت کی سلامتی کا ضامن ہے۔ وگرنہ بھارت کی مظلوم پسماندہ اقوام شمالی مغربی ہند اور کابل سے آنے والے روائتی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہیںگے۔
مندرجہ بالا شرح آبادی کی رُو سے چھوت اقوام بھارت کی کل آبادی کا 65% بنتے ہیں۔ اس 65% آبادی کا بے تاج لیڈر ڈاکٹر امبیدکر ہیں۔ جن کی تعظیم و تکریم کے حوالے سے کلدیپ نئیر لکھتے ہیں کہ دکن میں ڈاکٹر امبیدکر کی وہی حیثیت ہے جو شمالی بھارت میں مہاتما گاندھی کی ہے بلکہ گاندھی سے بھی زیادہ۔ امبیدکر اور گاندھی کے تعلقات کے بارے میں بیورلے نکلس لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر کہا کرتے تھے کہ ”گاندھی اچھوت اقوام کا موروثی اور ازلی دشمن ہے“ اچھوت اقوام کو سب سے زیادہ نقصان گاندھی نے پہنچایا ہے۔ گاندھی امن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ (ص 38)۔ جب نام نہاد مہاتما گاندھی قتل ہوا تو اس وقت ڈاکٹر امبیدکر بھارت کے وزیر قانون تھے۔ ڈاکٹر امبیدکر اپنی ہونے والی دوسری بیوی ڈاکٹر شاردا کو خط لکھتے ہیں کہ یہ دن خوشی کا دن ہے۔ آج بھارت کو ایک خودپسند، خودغرض، مکار، جھوٹے اور دھوکاباز دیوتا سے نجات مل گئی۔
اب کانگریس کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اور اس کی قیادت اپنی اصلاح کرے اور حقیقت پر مبنی فیصلے کرے۔ڈاکٹر امبیدکر کی لڑائی چومکھی تھی۔ وہ برصغیر میں آزاد اچھوت ریاست کے خواہاں تھے۔ ان کا بیان ہے کہ اچھوت اقوام ہندی مسلمانوں کی طرح ہندو برہمن سے مختلف اور علیحدہ ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اچھوتوں کی علیحدہ نشستیں ہندو برہمنیت کے خاتمہ کا آغاز ہے، ڈاکٹر امبیدکر کے دو اہداف تھے۔ وہ اپنی اقوام کےلئے آزاد ریاست اور انسانی مساوات پر استوار آفاقی مذہب اور ان دونوں اہداف کے حصول کےلئے ان کا طریقہ کار بھی واضح تھا۔ مذہب کے بارے میں ڈاکٹر امبیدکر کا موقف تھا کہ بدقسمتی سے وہ ہندو کلچر یعنی تہذیب و تمدن میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ہندو نہیں بلکہ ہندو مذہب کے دشمن ہیں اور بحیثیت ہندو نہیں مریں گے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے مذہب کے حوالے سے اپنی تحریروں اور تقریروں میں لکھا ہے کہ ہندو ازم مذہب نہیں بلکہ ذات پات، اونچ نیچ اور آریائی نسل پرستی کا بدترین نظام ہے۔ بدھ مت ہندوستانی یعنی مقامی مذہب ہے مگر ظالم اور مکار ہندو برہمن نسل پرستی کی نذر ہو گیا۔ سکھ مذہب بھی بدھ مت کی طرح ہندوستانی اور مقامی ہے۔ مگر ہندوستان میں ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ عیسائی مذہب غیرہندی اور غیرمقامی ہے۔ مگر ان کی آبادی تھوڑی ہے۔ اسلام غیرہندی اور غیرمقامی ہونے کے باوجود ہندوستان کا سب سے بڑا پھیلنے والا مذہب ہے۔ اگر اچھوت اقوام مسلمان ہو جائیں تو ان کو مذکورہ بالا دونوں اہداف فوری طور پر حاصل ہو جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
ڈاکٹر امبیدکر نے وفات سے ایک ماہ قبل یعنی نومبر 1956ءمیں بدھ مت قبول کر لیا۔ آزاد اچھوت ریاست کی جدوجہد اور قیام کےلئے مختلف عوامل کا ذکرکرتے ہوئے ڈاکٹر امبیدکر بیورلے نکلس ص 41,40کو بتاتے ہیں کہ ”ہندوستان کے ہر گاﺅں میں اچھوت اقوام اقلیت بنکر بکھرے ہوئے ہیں۔ میں اس منتشر اقلیت کو متحد کر کے اکثرت میں بدلنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ کام ہندو برہمن، (کانگرس وغیرہ) نہیں کرنے دے گا۔ لہٰذا میری برطانوی سرکار سے درخواست ہے کہ جب تک اچھوت عوام کے علیحدہ حقوق اور شناخت محفوظ نہ ہو جائیں۔ وہ ہندوستان چھوڑ کر نہ جاتے اگر اب نہ ہوا تو ہندی اچھوت اقوام کی بدبختی یورپ کے کسی بھی مظلوم اور پسماندہ عوام سے بدتر ہوگی۔“ (ص 41,40)
قائداعظم، علامہ اقبال اور مسلم لیگ ڈاکٹر امبیدکر کے فکر و نظر سے بخوبی آگاہ تھے۔ مسلم لیگ کی مذکورہ بالا قیادت کے تعاون سے اچھوت اقوام کو کمیونل ایوارڈ میں مسلمانوں کی طرح علیحدہ تشخص ملا۔ جس پر گاندھی اور کانگرس خوب سیخ پا ہوئئے کیونکہ اچھوتوں کی علیحدہ شناخت اور نمائندگی کے باعث ہندوستان میں ہندو اکثریتی قوم نہیں رہتی بلکہ خود اقلیت بنکر رہ جاتی ہے اور اس طرح ہندو برہمن کا ہندوانا یعنی ہندوستان میں رام راج نام نہاد جمہوری خواب پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ مسلم قیادت کی اچھوت اقوام کے ساتھ یکجہتی کے تناظر میں اچھوت لیڈر مسٹر منڈل نے اچھوت قومیتوں کی فیڈریشن (Sheduled Castes Federation) (SCF) کے جلسہ عام منعقدہ 25 اگست 1944ءبمقام کلکتہ عیسائی لیڈر جوشو افضل الدین کے درج ذیل الفاظ کا حوالہ دیا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر مسلمانوں نے اچھوتوں اور عیسائی اقلیتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ مسٹر گاندھی نے اس کی مخالفت کی (بڑی جوئی) کا زور لگانا یہانتک کہ مسٹر جناح کے چودہ نکات کو بھی قبول کرنے کی پیش کر دی۔ فقط اس شرط پر مسلمان ہریجنوں (اچھوتوں) کے جداگانہ حق انتخاب کے مطالبے کی مخالفت کریں۔ مگر عظیم مسلمانی قوم قابل داد ہے کہ انہوں نے ہریجنوں کے ساتھ بے وفای کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے دستخطوں سے منحرف نہ ہوئے۔ (تحریک پاکستان کے تاریخی خدوخال از پرویسر محمد منور ص 95، بحوالہ جے۔ ای۔ سنجانا کی کتاب Caste and Outcastes)
ڈاکٹر امبیدکر نے گاندھی سے پونا پیکٹ 1932ءکیا اور معاہدہ سے انحراف کیا مگر گاندھی کی بدعہدی کے باعث ڈاکٹر امبیدکر نے پونا پیکٹ کو ”عظیم غداری“ کا نام دیا۔ بعدازاں ڈاکٹر امبیدکر نے اپنے کڑوڑوں اچھوت قومیتوں کے اسلام قبول کرنے کا عندیا دیا جس پر گاندھی، کانگریس اور انگریز نے حیلے بہانے، دھمکی، دباﺅ اور لالچ کے ذریعے ڈاکٹر امبیدکر کو اسلام قبول کرنے سے روکے رکھا۔ ڈاکٹر امبیدکر ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اور حیثیت کو بخوبی جانتے ہیں اور مانتے تھے۔ لہٰذا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ مدارس (چنائی) 1945 میں اچھوت اور قابل قومیتوں کے قائدین نے مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ سیاسی جدوجہد کےلئے معاہدہ کیا جس کو تاریخ میں ”جناح، امبیدکر اور پیری یار سے سیاسی اتحاد“ کہا جاتا ہے۔ (بحوالہ ایس۔ کے۔ بسواس، فادر آف انڈین آئین) مسٹر جوگندر ناتھ منڈل مذکورہ معاہدہ کے تحت ہی آزاد پاکستان کے پہلے وزیر قانون بنے تھے جبکہ پاکستان کی آئین ساز کمیٹی کے سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی تھے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر امبیدکر آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون اور آئین ساز کمیٹی کے سربراہ تھے۔ ہندی مسلمانوں کے ساتھ بے وفائی اچھوت قائدین نے کی ہے، مسلمان قیادت نے نہیں کی۔
بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر امبیدکر نے 27 ستمبر 1951 کو نہرو کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ استعفیٰ کی وجوہات میں ڈاکٹر امبیدکر نے لکھا کہ کانگریس قیادت دوغلی ہے۔ وہ بھارت میں سیکولرازم اور جمہوریت کے فروغ سے زیادہ رام راج (ہندوانا) کے نفاذ کی حامی ہے۔ نہرو کی کشمیری پالیسی خطے میں امن کےلئے مہلک ہے۔ جو بالآخر بھارت کی آزادی اور خودمختاری کےلئے خطرہ بن جائے گی۔ کانگریس کی قیادت (نہرو وغیرہ) بھارت میں منوسمولی یعنی ہندومت کے ہزاروں سال پرانے ظالمانہ اور غیرانسانی قوانین کا من و عن آئینی اطلاق چاہتی ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے اچھوت قومیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھ کر ہندومت میں اصلاحات Hindu Code Bill پارلیمنٹ میں منظوری کےلئے پیش کیا جو کانگریس بالخصوص نہرو کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے منظور نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر امبیدکر کے استعفیٰ کی کئی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ ڈاکٹر امبیدکر نے بھارتی آئین کے رہنما اصولوں پر تاریخی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئین اس وقت تک اچھا ہے جب تک اس کے جلانے والے اچھے ہیں۔ برے حاکم اچھے آئین کو بھی برا بنا دیتے ہیں۔ کڑوڑوں اچھوت قومیتوں کو قومی ترقی و سلامتی کے دھارے میں لانے کےلئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی مساوات اور وسائل فراہم کئے جائیں۔ جس کےلئے ڈاکٹر امبیدکر نے سفارشات پیش کیں کہ آزاد بھارت کو شمالی اور جنوبی زونز (Zones) میں بانٹ دیا جائے۔
بھارتی عوام کی یکساں ترقی و بہبود کےلئے لازم ہے کہ بھارت کی دو قومی زبانیں اور دو دارالحکومت ہوں۔ وگرنہ مسائل ........ پیدا کریں گے۔ نیز ڈاکٹر امبیدکر نے کانگریس کی ہندو قیادت کو وارننگ دی تھی کہ اگر بھارت میں سیکولرازم کی جگہ رام راج اور ہندوانا کے نفاذ کی سرکاری سرپرستی کی گئی تو بھارت مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ بھارت ایک نظریاتی وحدت نہیں۔ جمہوری سیکولرازم نے بھارتی کو جغرافیائی وحدت بنا رکھا ہے۔ اچھوت قومیتوں کی ترقی و بہبود اور اقلیتوں کے تحفظ بھارت کی سلامتی کا ضامن ہے۔ وگرنہ بھارت کی مظلوم پسماندہ اقوام شمالی مغربی ہند اور کابل سے آنے والے روائتی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہیںگے۔