پاکستان کی تاریخ میں کئی سیاسی خاندانوں نے حکمرانی کے ابواب رقم کیے اور ملکی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اچانک رحلت کے بعد ایک لمبے عرصے تک ملکی سیاست جمودیت کا شکار رہی اور جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے صدارتی الیکشن کا اعلان کیا تو بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مجبور کرنے پر خاردار سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا اور وہ پوری سیاسی و عوامی حمایت سے الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ ہوئیں۔ جس پر آمر ایوب خان اور اس کے حواریوں نے انتخابی نتائج کو یکسر تبدیل کرکے نہ صرف بانی پاکستان کے روح سے غداری کی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کے کردار اور سیاست کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ آخر خوار ہو کر جب آمر کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو اپنے بھائی بند فوجی جرنیل کے حوالے عنان اقتدار تھما دی۔70کی دہائی تک دولتانے ممدوٹ اور مخدوم ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ 79ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اس سیاسی وراثت کی بھاگ دوڑ کو اپنے ہاتھ لیا اور قیدوبند و جلاوطنی کے بعد جب 10اپریل 86ءکو وہ واپس وطن پہنچی تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ان کا استقبال کیا ۔ضیاءالحق کی وفات کے بعدان کے صاحبزادے اعجاز الحق اور جنرل عبدالرحمن اختر کے صاحب زادے ہمایوں اختر خان اور آمر ایوب خان کے صاحبزادے عمرایوب بھی سیاست میں نہ صرف قدم رکھ چکے تھے بلکہ کسی حد تک زمام اقتدار بھی ان کے ہاتھوں میں تھی۔ 80کے ابتدائی عشرے میں جب تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خاں کی جماعت کے رکن میاں محمد نوازشریف اپنے مدبر باپ میاں محمد شریف صاحب مرحوم کی بدولت پنجاب کی سیاست میں داخل ہوئے تو بہت ہی جلد وہ اپنی عوامی سیاست کی وجہ سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ 1990ءمیں میاں نوازشریف صاحب پہلی بار ملک کے وزیراعظم بنے تو ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی خاردار سیاست میں اپنے راستے بنا چکے تھے جبکہ 93ءکے الیکشن میں مرکز میں ناکام رہنے کے باوجود میاںنوازشریف ایک عوامی لیڈر کے طور پر مرکز اور پنجاب میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئے۔ 5نومبر96ءکو جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو دوسری دفعہ فارغ کرکے 97ءمیں الیکشن کروائے گئے تو میاں نوازشریف پورے ملک میں دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور دوسری دفعہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں انہوں نے اپنے ساتھی چوہدری پرویزالٰہی کی بجائے اپنے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ میاں شہبازشریف جن کو مرکز میں اپنے بڑے بھائی کی حمایت حاصل تھی بڑی سیاسی کامیابی سے صوبے کا انتظام سنبھالا اور یوں 71ءکے بعد دوسری دفعہ ایک مضبوط حکومت مرکز اور پنجاب میں دیکھنے کو ملی۔ میاں شہبازشریف نے بہت جلد انتظامی معاملات پر توجہ دی اور ثابت کیا کہ ہزار سیاسی اختلافات کے باوجود وہ ایک اچھے منتظم کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پنجاب جہاں دوسرے صوبوں کی بہ نسبت کرائم ریٹ بہت بڑھ گیا تھا۔ ڈاکوﺅں اور لٹیروں نے عام انسانوں کا جینا محال کر دیا تھا۔ میاں شہبازشریف نے کرائم ریٹ کو ”طلسماتی“ حد تک کم کر دیا۔ شریف خاندان کے ان دونوں بھائیوں کو اپنے ابا جی کی راہنمائی بھی حاصل تھی جو بزنس مین ہونے کے باوجود سیاسی معاملات کو اپنے بیٹوں کی بہ نسبت بہتر سمجھتے تھے۔ اسی دوران اکتوبر99ءکو جب فوج،عدلیہ اور شریف فیملی کے درمیان چپقلش کا فائدہ اٹھا کر جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو شریف فیملی پر ابتلا کا دور شروع ہوا۔ اس سے پہلے شریف فیملی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت میں قومیائے گئے اداروں کی پالیسی کی وجہ سے معاشی ابتلا کا دور دیکھ چکے تھے مگر مشرف کے دور میں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ کاروبار،جائیداد پر مشرف حکومت نے قبضہ کر لیا۔ میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی سیاسی پارٹی بھی مشرف کی دسترس سے نہ بچ سکی حتیٰ کہ پارٹی کے ساتھی اپنی راہیں جدا کرکے مشرف بہ مشرف ہو چکے تھے۔ شریف فیملی کو لمبی سزائیں سنا کر قلعوں میں پابندسلاسل کر دیا گیا۔ جیل کی کوٹھڑیوں میں سانپ چھوڑے گئے اور دوران ہوائی سفر سیٹوں سے جکڑ کر لایا اور لے جایا جاتا رہا۔ اور اس سے پہلے کہ آمر مشرف کوئی حتمی قدم اٹھاتا شریف خاندان کے ذاتی روابط اور دوستی کی بنا پر عرب ممالک نے مداخلت کی اور میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کو جبری جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا ۔حمزہ شہباز کے علاوہ خاندان کے درجنوں افراد کو بھی جلاوطنی کا زہر پینا پڑا۔ چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی انہی دنوں جلاوطنی کی زندگی گزار پر مجبور تھیں اس طرح ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کو احساس ہوا کہ سیاست میں عدم برداشت کے فلسفے سے جان چھڑانا ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ نوابزادہ نصراللہ خان کی بزرگانہ قیادت کو دونوں خاندانوں نے قبول کیا اور اے آر ڈی کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور بعدازاں یہ سلسلہ میثاق جمہوریت کی صورت میں پاکستانی عوام کے لیے ایک سکون قلب کا باعث بنا۔ اس دوران میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف جدہ سے بغرض علاج لندن سکونت اختیار کر چکے تھے اور پہلے میاں شہبازشریف لندن سے لاہور ایئرپورٹ پر اترے مگر جبری طور پر واپس لندن بھجوا دیا گیا۔ (جاری ہے)
پھر کچھ عرصے بعد میاںنوازشریف کو راولپنڈی ایئرپورٹ سے جبری واپس بھجوا دیا گیا۔(جاری ہے)
اس دوران این آر او کے معاہدے کے تحت شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 18اکتوبر کو وطن واپسی ممکن ہوئی تو تھوڑے عرصے بعد شریف فیملی کو بھی وطن واپس آنے کا موقع مل گیا جبکہ اس دوران میاں محمد شریف رحلت فرما چکے تھے جن کے جسدخاکی کو وطن بھجوایا گیا تو دونوں بھائی اور خاندان کے دیگر جلاوطن افراد ساتھ نہ آ سکے تھے۔ الیکشن 2008ءکی مہم کے دوران جب میاں نوازشریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے میاں صاحب کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسری دفعہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی دوسری دفعہ شریف خاندان کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکا۔ میاں محمد نوازشریف اپنی حلیم طبیعت جبکہ میاں شہباز شریف نے اپنی بردباری اور دانش سے الیکشن کو خصوصاً پنجاب میں اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب ہوئے اور دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر منوایا۔ الیکشن میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھی ہوئی تھی اور کولیشن پارٹنر بن کر مرکز میں وزارتیں حاصل کیں اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر کولیشن حکومت بنائی۔ مسلم لیگ ن نے پہلے تین ماہ سردار دوست محمد کھوسہ کو وزارت اعلیٰ کے مسند پر بٹھایا۔ بعدازاں عدالتوں سے کلیئرنس کے بعد دوسری دفعہ میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ کے مسند پر فائز ہوئے جبکہ اس دوران مرکز میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی سے اپنی راہیں جدا کر چکی تھی اور پنجاب میں بحالت مجبوری کولیشن پارٹنر بنے رہنے پر مجبور تھی۔ اس دوران گورنر راج اور پھر اعلیٰ ججز کی بحالی ممکن ہوئی تو میاں شہبازشریف تیسری دفعہ وزیراعلیٰ بن گئے لیکن د ونوں بڑی سیاسی جماعتیں ماضی کی تلخیوں کو فراموش نہ کر سکیں۔ یہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان جہاد کر دیا ہے اس کے باوجود کہ ان پر رات کے اندھیرے میں چوہدری نثار کے ساتھ جرنیلوں کو ملنے کی خبریں بھی گشت کرتی رہیں اور اس حقیقت سے بھی فرار ممکن نہیںکہ مسلم لیگ ن میں ایک طبقہ پیپلزپارٹی کے ساتھ صلح کا حامی نہیں بلکہ مسلم لیگ ق کے ساتھ تو ہاتھ ملانے کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل اوربحرانوں میں جب گندم ،کھاد، چاول، چینی، زرعی ادویات ناپید ہیں، بجلی ،پانی، گیس نہ ہونے کے برابر ہے ۔ میاں شہباز شریف کو ترقیاتی کام رکوا کر سستی روٹی جیسے غیرمقبول فیصلے کرنے پڑے۔ دہشت گردی کی وجہ سے صوبہ میں لاءاینڈآرڈر کے بھی مسائل ہیں۔میاں محمد نوازشریف خرابی صحت کی وجہ سے لندن مقیم ہیں جن کے متعلق خبریں سن کر مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں سراسیمگی اور پریشانی پائی جاتی ہے۔ پنجاب میں طاقت کا توازن بھی 97ءجیسا نہیں۔ پیپلزپارٹی کو حکومت سے الگ کر دیا گیا ہے ۔ یوں چوہدری نثار مرکز میں اور رانا ثناءاللہ صوبے میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ میاں شہبازشریف وزارت اعلیٰ کے علاوہ 20سے زائد وزارتوں پر اکیلے ”چومکھی“ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بجٹ سے پہلے ق لیگ سے ”جپھی“ ڈالنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مسلم لیگ ن سے ہاتھ ملانے کو آمادہ نظر نہیں آتیں جبکہ میاں شہباز شریف اپنے اتحادی ق لیگ کے فارورڈ بلاک کو بھی ابھی تک خوش نہیں کر سکے اور ایک سیاسی طالب علم ہونے کے ناطے میں اور دیگر لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ان سب حالات میں مسلم لیگ ن کو تنہا تو نہیں کیا جا رہا ؟اب بہت سے فیصلے میاں شہبازشریف کو اکیلے ہی کرنا ہوں گے اور اپنے اطراف ”ہارڈ لائنر“ کے حصار کو توڑنا ہوگااور موجودہ تقاضوں کی سیاست کرنا ہو گی۔ سیاست میں کوئی بھی چیز کسی وقت رونما ہو سکتی ہے۔ عدم برداشت اور تلخیوں کی سیاست کو فراموش کرکے اٹھارہ کروڑ عوام کو ریلیف دینے کی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا تمام مسلم لیگی گروپس کا اتحاد اگر ہو تا ہوا ممکن نظر آئے تو تمام مسلم لیگی گروپس آپس میں کسی ایسی معتبر شخصیت کو اپنا لیڈر چن لیں جو سب کےے لیے قابل قبول ہو۔محترم مجید نظامی صاحب سے اس سلسلہ میں مشاورت کی جا سکتی ہے جن کا ماضی اور حال اس بات کی ضمانت ہے کہ آج بھی عمر کے اس حصے میں بھی وہ پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے کچھ کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یقینا اس وطن عزیز کو پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں وفاق کی علامت ہیں اور موجودہ حالات میں دو قومی سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے ہونا اچھا شگون ہوگا۔