لڑو مت، جمہوریت بچاو!


اس وقت میدانِ سیاست میں تین بہت متنوع شخصیات نمایاں دکھائی دے رہی ہیں۔ سب سے پہلی شخصیت میاں محمد نوازشریف کی ہے جو ایک منجھے ہوئے اور مدبّر سیاستدان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ نوازشریف دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں دونوں مرتبہ بغیر ٹرم پوری کئے غیرآئینی طریقے سے ہٹایا گیا۔ پہلی بار 1990ءمیں منتخب ہوئے، وزیراعظم بنے لیکن غلام اسحاق خان نے انہیں ڈھائی سال بعد برطرف کر دیا۔ دوسری بار 1997ءمیں وزیراعظم بنے لیکن محض دو سال بعد پرویز مشرف نے آمرانہ انداز سے انہیں برطرف کیا اور ملک بدر کر دیا۔ نوازشریف کے سیاسی پس منظر میں بہت سے تلخ اور بھیانک حقائق چھپے ہوئے ہیں، شاید اسی لئے آج بھی وہ وزارتِ عظمٰی کے سب سے مضبوط اور مقبول ترین امیدوار ہیں۔
دوسری شخصیت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی ہے جن کے حامیوں کی رونق نے ان کے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ عمران خان گزشتہ تقریباً پندرہ برس سے سیاست میں ہیں اور اس وقت وہ نوجوان نسل کے نمائندہ رہنما کے طور پر پہچانے جا رہے ہیں لیکن ان کی کامیابی کے آثار اس لئے کم کم نظر آ رہے ہیں کہ دیہات میں برادری سسٹم اور ذات پات کا رواج ابھی ٹوٹا نہیں۔ پنجاب کے بڑے شہروں کی حد تک عمران خان کی مقبولیت مسلمہ ہے لیکن جو نوجوان نسل عمران کے رضا کاروں میں شامل ہے اس میں سے اکثریت کے ووٹوں کا ابھی تک اندراج بھی شاید نہیں ہوا۔ اس لئے عمران خان کو اپنے جلسوں کا حجم دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ توقعات آدمی کو بہت زیادہ مایوس بھی کر دیتی ہیں اور مایوسی گناہ ہے۔ لہٰذا عمران خان اس گناہ سے بچنے کی خاطر خوش فہمی سے اجتناب کریں۔ تیسری شخصیت ماضی کی مقبول ترین سیاسی جماعت پی پی پی کے نو عمر، نو آموز اور نو وارد چیئرمین بلاول زرداری بھٹو ہیں جنہوں نے ابھی سیاست میں پوری طرح قدم بھی نہیں رکھا، لیکن ان کے دعوے سننے کے لائق ہیں جبکہ ابھی پی پی کے پانچ سالہ دورِ حکمرانی کا ”مزہ“ عوام چکھ رہے ہیں، لیکن یہ دعوے اور وعدے کرنا ہرسیاستدان کا پیدائشی حق ہے۔ بلاول نے اپنی کمپین کو ”جنون“ کا نام دیا ہے اور ان کی پشت پر ان کے مدبّر سیاستدان والد آصف علی زرداری کھڑے ہیں دیکھیں یہ تدبّر اور جنون کیا رنگ لاتا ہے؟
 حالیہ انتخابات بہت سے حوالوں سے گزشتہ الیکشن کی نسبت مختلف اور اہم ترین ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ 1988ءسے لے کر 2008ءتک یعنی پاکستان کے سیاسی دور کے بیس سال بہت سے اہم واقعات و حادثات سے بھرے پڑے ہیں جن میں پرویز مشرف آمریت کے نو سال اور بے نظیر بھٹو کی بے وقت اور حادثاتی موت سب سے اہم ہیں۔ ان بیس سالوں میں دوبار میاں نوازشریف اور دو بار ہی بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے اور برطرف کئے گئے نوازشریف کے دونوں ادوار کا دورانیہ ملا کر بھی پانچ سال نہیں بنتے۔ لیکن بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار کا دورانیہ پانچ برس سے کچھ اوپر ہے.... اسی دوران میں عمران خان بہت نمایاں انداز میں سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے اور آج وہ تیسری سیاسی قوت کہلانے کے مستحق ہیں۔ الیکشن کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ سابق آمر صدر پرویز مشرف، جو کسی غلط فہمی کی بناءپر پاکستانی سیاست میں اپنا ”بھرپور“ کردار ادا کرنے کی غرض سے وارد ہوئے تھے، آتے ہی اپنے نو سالہ دورِ حکومت میں سرکردہ ”معرکوں“ کا حساب دے رہے ہیں جو عدلیہ اُن سے لے رہی ہے انہیں الیکشن کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہے اور بے نظیر قتل کیس سمیت غداری اور دیگر مقدمات میں ملوث پائے جانے پر اچھے خاصے سخت عدالتی ٹرائل کا سامنا ہے۔
حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی قریب قریب ایک مسترد شدہ پارٹی کے طور پر دکھائی دے رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ میاں نوازشریف سے شاکی ہیںکہ انہوں نے زرداری حکومت کو ہر مرحلے پر سنبھالا دیا اور کسی ایشو پر زرداری حکومت کو صحیح معنوں میں اپوزیشن بن کر نہیں دکھایا جس کی بناءپر پی پی حکومت نے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے کو لوٹا، تمام بڑے بڑے محکمے برباد کر دیئے اور ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا۔ دراصل زرداری حکومت کے ساتھ میاں نوازشریف کے تعاون کی سب سے بڑی وجہ آمریت کا دروازہ بند کرنا ہے۔ یہ ایک مثبت اور دُور اندیش رویہ ہے، اگر ماضی کی طرح آج بھی سیاست دان آپس میں دست و گریبان ہوتے رہیں گے تو آمریت کا راستہ کون روکے گا؟جب تک سیاست دان یکجان نہیں ہو جاتے اس ملک سے آمریت کے سائے نہیں چھٹیں گے.... اب آ کر اگر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے تو ہر سیاسی لیڈر کو اس سوچ کی پیروی کرنا چاہیے۔ عمران خان کو میاں نوازشریف کی مخالفت کے عوض کچھ نہیں حاصل ہونے والا.... اگر عمران خان نوازشریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہو جائیں جو آمریت کے تدارک کے لئے کیا جا رہا ہے تو مستقبل عمران خان اور جمہوریت کا ہوگا۔ (انشاءاللہ)

ای پیپر دی نیشن