اندازے، قیافے اورخدشات

بعض لوگوں کی زندگی مےں سےکھنے کا عمل بہت سست رفتاری کا شکار ہوتا ہے۔ اےسے لوگوں کی کےمسٹری ہی کچھ اےسی ہوتی ہے کہ تےزی سے آگے بڑھنے کی صلاحےت نہےں رکھتے ۔ بالکل کچھ اسی طرح پاکستان کے مختلف ادارے اور سےاسی عمل بھی برسوں سے سست روی کا شکار رہا ہے۔
جب سے ہماری عدلےہ نے خود کو آزاد محسوس کرنا شروع کےا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ملک کے دےگر تمام ادارے بھی صدےوں کا فاصلہ صرف اےک جست مےں طے کرکے اس کے ہم رکاب ہو جائےں۔ اگر دوسرے اداروں مےں صلاحےت کا فقدان ہو تو پھر اس صورت مےں ہماری عدلےہ ان کی کس طرح مدد کرسکے گی؟ ےہ جاننا ابھی باقی ہے۔ اس ضمن مےں عدلےہ نے گزشتہ دنوں الےکشن کمےشن کو اےک مفےد مشورے سے نوازتے ہوئے کہا تھا کہ الےکشن کمےشن خود کو کمزور کےوں سمجھتا ہے۔ ؟جناب والا وہ شاےد اس لےے کہ اس ادارے مےں کوئی بھی افتخار محمدچودھری موجود نہےں ہے۔
قارئےن! اس وقت عدلےہ کے سوا ہمارے تمام ادارے ابھی بچپن اور بلوغےت کے کسی درمےانی مقام پر پہنچنے کی کوشش مےں ہےں ےا پھر تےزی سے بدلتے حالات انھےں اس جانب دھکےلتے لےے جا رہے ہےں۔ موجودہ دور مےں عدالتی نظام جتنا طاقتور دکھائی دے رہا ہے اس کی ےہ کارکردگی کہےں چند شخصےات کی مرہونِ منت تو نہےں ہے۔ اس بنا پر ےہ خدشہ بھی سراُٹھا سکتا ہے کہ وہ لوگ جن کی بدولت ملک مےں عدلےہ آزاد اور خودمختار ہوئی ہے ۔کےا ان کے جانے کے بعد بھی انصاف کا پرچم اسی طرح بلند رہے گا؟ بہرحال ہمےں نااُمےد نہےں ہونا چاہےے اور مثبت اندازِ فکر اپنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہےے۔
خبر کے مطابق افتخارمحمد چودھری کے عہدے مےں اےک سال دس ماہ کی توسےع کے لےے سپرےم کورٹ لاہور رجسٹری مےں درخواست دائر کردی گئی ہے۔ اس مےں موقف اختےار کےا گےا ہے کہ کےونکہ مشرف نے چےف جسٹس افتخار محمد چودھری کو اےک سال دس ماہ تک غےر آئےنی طور پر عہدے سے معزول کرکے قےد مےں رکھا تھا ان کی معزولی کی ےہ مدت ان کے مدت عہدہ مےں شامل ہونی چاہےے۔ لہٰذا عدالت 12دسمبر 13 کو چےف جسٹس کی رےٹائرمنٹ کو روک کر اُن کے مدت عہدہ مےں توسےع کا حکم جاری کرے۔
اگر چےف جسٹس کو توسےع مل جاتی ہے تو پھر کرپشن مےں ملوث تمام عناصر کو کڑے احتساب کے لےے تےار رہنا چاہےے اور مشر ف کو بھی جن کے خلاف طوےل قانونی جنگ چھڑنے والی ہے اس جنگ مےں ان کے کمانڈو اےکشن کام نہےں آنے والے۔
تاحال اندازے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مشرف نے اپنی واپسی کا فےصلہ کےوں کےا؟ اہلِ فکر ابھی اس راز سے پردہ اُٹھانے مےں کامےاب نہےں ہوسکے۔ اےسی صورتِ حال مےں کہا جاسکتا ہے کہ کچھ باتوں کی گرہےں وقت گزرنے کے ساتھ کھلتی چلی جائےں گی۔ ہمےں اُس وقت کا بڑے صبر وتحمل سے انتظار کرنا ہے کےونکہ بے صبری ہمےشہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔
ہماری صوبائی اور وفاقی نگران حکومتےں شروع دن سے ہی اس بات کا اعادہ کرتی آرہی ہےں کہ ان کا کام پُرامن اور شفاف الےکشن کرانے تک محدود ہے۔ اس لےے ان سے کسی تارےخ ساز قسم کے فےصلوں کی اُمےد رکھنا بے معنی ہوگا۔ 85 سالہ نگران وزےراعظم کے اختےارات کا اندازہ لگانے کے لےے اےک بات ہی کافی ہے کہ وہ ابھی تک عوام کو صرف لوڈشےڈنگ مےں کسی قسم کا رےلےف دےنے مےں کامےاب نہےں ہوسکے۔ اس بے بسی کے عالم مےں نگرانوں سے عدل وانصاف کا بھاری پتھر کےونکر اُٹھاےا جائے گا۔ بلاشبہ سابق ڈکٹےٹر پر غداری کا مقدمہ فائل کرنے کا کام بھاری مےنڈےٹ کے ساتھ آنے والی عوامی حکومت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔
دراصل مشرف کی واپسی ہمارے قومی اداروں کا امتحان بھی ہو سکتی ہے۔ عدلےہ کس قدرآزاد ہے ےہ تو سب کو معلوم ہے لےکن وہ اپنی آزادی کا استعمال کس سلےقے اور طرےقے سے کرتی ہے اب ےہی دےکھاجانا مقصود و مطلوب ہے۔ مشرف کی واپسی اس بات کو جانچنے اور پرکھنے کے لےے بھی ہوسکتی ہے کہ عدلےہ کے علاوہ باقی ادارے اےک رےٹائرڈ جنرل کے ساتھ کےسا سلوک روا رکھتے ہےں۔ اس کا لحاظ رکھتے ہےں تو کس حدتک جاتے ہےں۔ ضمانت ختم ہونے پر گرفتار کرتے ہےں ےا اپنے حصار مےں لے کر فرار کا راستہ ہموار کرتے ہےں۔ گرفتار کرتے وقت ہتھکڑی لگاتے ہےں جس طرح ماضی مےں سےاسی حکمرانوں کو لگتی رہی ہے ۔ گرفتاری کے بعد کال کوٹھڑی مےں ڈالتے ہےں ےااس کے اپنے فارم ہاﺅس ہی کو سب جےل کا درجہ دےتے ہےں۔ کےا عدالت اپنی آزادی کے باوجود جسمانی رےمانڈ دےتی ہے ےا جوڈشنل رےمانڈ ۔ حالانکہ دونوں مےں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جوڈشنل رےمانڈ اُس کو دےا جاتا ہے جس ملزم کی تفتےش مکمل کرلی گئی ہو، اور آخر مےںاگر ملزم کی والدہ دبئی مےں بےمارہوجائے تو اس صورت مےں ملزم کو دبئی جانے کی اجازت دےتے ہےں ےا نہےں؟
ملکی تارےخ کے دوسرے شفاف انتخابات کو شروع دن سے ہی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مولاناقادری صاحب کی کےنےڈ ا سے ہنگامی طورپر واپسی نے انتخابات کو ہی مشکوک کرنے کی کوشش کی ،جسے عدلےہ نے اپنے تدبر سے ناکام بنادےا۔ پھر اُمےدواروں کی سکروٹنی ہونے لگی اور ےوں اےک نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا۔ اس سارے عمل کے دوران ےہ پتہ لگا نا مشکل ہو رہا تھا کہ ہم انتخابات کی طرف جا رہے ہےں ےا انتخابی عمل ہم سے دور کےا جارہا ہے۔ آخر مےں جب الےکشن کمےشن کے مسترد کردہ اُمےدواروں کو عدالتوں نے اہل قرار دےنا شروع کردےا تھا تو اےسے وقت مےں مشرف کی واپسی نے مےڈےا کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگاےا جا سکتا ہے کہ بش پر جوتا پھےنکے جانے کے منظر کو جتنی شہرت ملی تھی۔ مشرف کے کمرئہ عدالت سے بھاگنے والے سےن کو بھی اتنی ہی پذےرائی ملی ہوگی ۔ اب معلوم نہےں مشرف نے شہرت کے لےے بھاگنا ضروری سمجھاہوگا ےا پھر ےہ پھرتی ان کی کمانڈو تربےت کا حصہ تھی۔
اس خدشے کا اظہار بھی کےا جارہا ہے کہ ےہی ادارے تھے اور اسی آزاد عدلےہ کی موجودگی مےں رےمنڈ ڈےوس قتل کرکے گرفتار ہوا اور پھر باحفاظت ملک سے فرار بھی کر ادےاگےا اسی طرح مےموکےس کے بہت اہم کردار حسےن حقانی کو بھی جانے کا راستہ دےاگےاتھا۔ اسی طرح شاےد مشرف کو بھی کوئی رستہ دے دےا جائے لےکن ےہ ضروری تو نہےں کہ ہر بار ردِ عمل اےک جےسا دےکھنے مےں آئے۔
سابق ڈکٹےٹر پر تنقےد کرتے وقت ہمےں اس دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ فردِ واحد کے جرائم پر لب کشائی سے ادارے کے تقدس پر حرف نہ آئے۔ وےسے بھی جنرل کےانی نے گزشتہ دنوںکاکول مےں جن اسلامی خےالات کا اظہار کےا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگاےاجاسکتا ہے کہ وہ کسی سابق ڈکٹےٹر کا تسلسل ہرگز نہےں ہےں۔ انھوں نے دفاعی ادارے کی ساکھ کو بہتر بنانے کی کےا کوشش کی ہے ےہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس وقت ساری قوم جذبات مےں بہے جا رہی ہے اور چاہتی ہے کہ سابق ڈکٹےٹر کا جلداز جلد احتساب ہونا چاہےے اور اسے کےفرِ کردار تک پہنچنا چاہے جبکہ قانونی معاملات مےں عقل اور دانشمندی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ وےسے بھی مشرف کے جرائم کی فہرست اتنی طوےل ہے کہ وہ اس قانونی جنگ سے بچ کے نکل نہےں سکتے اگر ہم انہیںواقعی قانون کی گرفت مےں آےا ہوا بے بس ملزم سمجھتے ہےں تو اس کے لےے جذباتی طور پر سوچنا کوئی معنی نہےں رکھتا۔ اےسے مےں مےاں نوازشرف کی طرف سے ان کے لےے ذاتی طور پر معافی کا اعلان ان کی بصےرت اور تدبر کو ظاہر کرتا ہے۔ اب دےکھنا ےہ ہے کہ مشرف بھی جواباََ مےاں صاحب سے معافی مانگ کر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہےں ےا پھر بھاگنے مےں عافےت تلاش کرتے ہےں۔

ای پیپر دی نیشن