25 لاکھ پاکستانی ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالیں گے: الیکشن کمشن

Apr 26, 2013

اسلام آباد (ثناءنیوز)11 مئی کے عام انتخابات مےں پاکستان مےں25 لاکھ افراد ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرےں گے ۔الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر رحمت علی مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے والے افراد کا صحیح تعین تو ابھی تک نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا اگر افواج پاکستان کے دوسری جگہوں پر تعینات افسران، جوانوں، وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والے سرکاری ملازمین، انتخابات میں ڈیوٹی دینے والے عملے کے ارکان اور اپنے گھروں سے دور محنت مزدوری کرنے والے تمام افراد کی تعداد کا ایک غیر محتاط اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد 25 لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اگر گزشتہ انتخابات میں ڈاک کے ذریعے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد دیکھی جائے تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔انتخابات کے دن لاکھوں کی تعداد میں افراد الیکشن ڈیوٹی دے رہے ہوں گے اور ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کروانے والے یہ لوگ خود تو اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ڈاک کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے کی آخری تاریخ 25 اپریل تھی لیکن اس طریق کار سے ووٹ دینے میں کسی خاص دلچسپی کا اظہار دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ الیکشن کمشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1997ءکے عام انتخابات میں44649 افراد نے ڈاک کے ذریعے ووٹ دیا، 2002 ءمیں یہ تعداد بڑھ کر 54062 ہو گئی اور 2008 ءکے انتخابات میں 59013 ووٹرز نے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالا۔۔غیر سرکاری تنظیم عورت فا¶نڈیشن کی سربراہ ممتاز مغل کہتی ہیں کہ اس بار صرف پنجاب میں 4 لاکھ افراد الیکشن ڈیوٹی دیں گے جن میں 2 لاکھ خواتین ہیں اور یہ خواتین حق رائے دہی سے محروم ہو جائیں گی۔ ممتاز مغل کے بقول ان انتخابات میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ انتخابات کروانے والا عملہ اپنا ووٹ دے سکے لیکن ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا طریق کار بھی کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی جانب سے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کو یقینی بنانے کے لئے ابھی الیکشن کمشن کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ اس کی حتمی تاریخ میں توسیع کر دے۔ مبصرین کے مطابق ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے درخواست دینے کی حتمی تاریخ سر پر ہے اور لوگوں کو اس پیچیدہ طریقے سے ووٹ ڈالنے کے لیے آگاہی دینے کی مہم کا ذرائع ابلاغ پر دور دور تک پتہ نہیں ہے۔

مزیدخبریں