میڈیا میں جنگ

جدید دور میں گرم اور سرد جنگوں کے مقاصد میڈیا وار کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پاکستان پر کئی دشمنوں نے میڈیا وار برپا کر رکھی ہے اس کا کسی حد تک جواب بھی دیا جاتا ہے۔میڈیا وار میں صحافی ہی سپاہی اور جرنیل ہوتا ہے جبکہ اس کے پیچھے حکومت اور فوج تھنک ٹینک کا کام کرتی ہے۔پاکستان میں آج میڈیا وطن کی جنگ لڑنے کے بجائے آپس میں بھڑ رہاہے۔کچھ Legends نے فوج کے خلاف بھی محاذ کھول لیا ہے۔اس سے کسی کو  فائدہ نہیں ہوگا ،نقصان کئی کا ہوسکتا ہے البتہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرنے والی قوتیں اس سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔
حامدمیر پر حملے کے پیچھے کوئی بھی ہو ،یہ بلا شبہ ایک سازش ہے ۔اس کا مقصد بہرحال حامد میر کی جان لینا نہیں تھا، مقصدان کو سبق سکھانا ہو سکتا ہے یا وہ کرنا  جو آج ہو رہا ہے یعنی پاک فوج کو متنازعہ بنا دیا جائے۔ حامد میر پر حملہ اگر  آئی ایس آئی نے کرایا توبہتر ہے  اس ایجنسی  کے معامالات  پولیس کے حوالے کر دیئے  جائیں۔ حامد میر نے اپنے عزیزوں دوستوں حتیٰ کہ اپنے گھر آئے ایک ایجنسی کے اہلکاروں کو بھی بتا دیا کہ ان کو آئی ایس آئی سے خطرہ ہے اور پھر چند روز یا ہفتے قبل بابا قادر بلوچ کے نظریات پوری دنیا تک پہنچانے پر آئی ایس آئی کی طرف سے شدید ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا تھا اس کے باوجود بھی آئی ایس آئی نے حملہ کرادیا۔ بہرحال حملہ میں متاثرہ شخص اگر الزام لگاتا ہے تو اس کی تحقیق ضرور ہونی چاہئے۔ افسوس اس پر ہوتا ہے اِدھر حامد میر پر حملہ ہوا اُدھر ان کے چینل پر جو کہا اورکیا گیا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں اور جو کچھ اس کے جواب میں دوسرے چینلز نے کیا وہ نہلے پہ دہلا تھا۔ ایک گروپ حملے کو لے کر فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے ،دوسرا گروہ یہی کچھ اس کے بارے میں زیادہ جوش سے شایداپنے بدلے چکانے کیلیے کر رہا تھا تاہم کچھ گروپس نے اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھا۔ حامد میر کوچاہنے والے اسے قائداعظم بنا کر پیش کرتے رہے مخالفین میر جعفر اور ان کے ادارے کو غدار اعظم ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ دونوں انتہائوں پر ہیں۔ حکومت معاملات سدھارنے کے بجائے بگاڑرہی ہے۔ پرویز رشید کے غلیل  کے بجائے دلیل والوں کا ساتھ دینے کے بیان سے میڈیائی جنگ میںحکومت کے پارٹی بننے کا تاثر ابھرا۔ حملے کی ہر کسی نے مذمت کی۔ میاں نواز شریف تیمارداری کے لئے تشریف لے گئے لیکن حکومت کی طرف سے فوج کے خلاف پراپیگنڈے کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ تیسرے دن چودھری نثارایک بیان داغ کر سرخرو ہو گئے۔ ہر تیسرے پروگرام میں دھاڑنے والے خواجہ آصف کے پیمرا میں چینل کی  بندش کی وزارت دفاع کی درخواست کو own کرنے پر حامد میر نے  ہسپتال میں لیٹے ضرور کہا ہو گا  یو ٹو ’’خواجہ‘‘۔
 حامد میر نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے خطرہ تھا۔انہوں نے ڈی جی کا نام نہیں لیا۔ اس پر ان کے ساتھیوں کو آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر کے خلاف زہر اگلنے پر معذرت نہیں تو شرمندگی کا اظہار ضرور کرنا چاہئے لیکن اس بیان کو اپنے جارحانہ خیالات کے مطابق ٹوسٹ کر رہے ہیں۔ ایسی ہی توڑ مروڑمتحارب گروپوں کی طرف سے ہو رہی ہے ۔دانش کسی کی میراث ہے نہ دانشور ہونے کے لئے چِِٹا جھاٹا ہونا ضروری ہے۔ منیب نوجوان اینکر ہے۔ اس کا  ردعمل محتاط، متوازن اور حقیقت پر مبنی تھا۔ ہم میڈیا والوں کو عوام کی رہنمائی کا زعم ہے۔  ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی اور مبالغہ آرائی ہماری گمراہی کی آئینہ داربن رہی  ہے۔ ایک میڈیا گروپ کو پاکستان کی صحافت ، سیاست اور فوج کو سر کر لینے خبط کاہے۔ اس کے کچھ لوگ خود کو کنگ میکر اور گورنمنٹ بریکر سمجھتے ہیں۔
 حامد میر کے بیان میں الطاف حسین کے دس میں سے کئی نکات اور  سوالات کے جوابات موجود ہیں ۔ ایک اب بھی تشنہ جواب ہے کہ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پنجاب نے قبول کی یہ اہم نکتہ کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔حامد میر کا بیان ان کے بھائی عامر میر نے پڑھ کر سنایا جس میں یہ کہہ کر فوج سے اپنی ’’والہانہ  محبت‘‘ کا اظہار کیاگیا۔’’آپ سب جانتے ہیں مقدس گائے قومی مفاد کے نام پر سچ سننے اور سچ بولنے والے صحافیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔‘‘ حامد میرکے بیان میں بھی فوج کے ساتھ یکجہتی،یگانگت اور محبت کی مہک بسی ہوئی  ہے۔بیان کے آخر میں فرمایا ان کی لڑائی وہی ہے جو ان کے والد پروفیسر وارث میر نے لڑی۔ یہ لڑائی پاکستان کی بقا، مضبوطی اور سالمیت کی لڑائی ہے۔ یہ لڑائی جمہوریت کے استحکام، دہشت گردی کے خاتمے، قانون کی بالادستی، آزادی اظہار کے تحفظ، چھوٹے صوبوں کے حقوق اور غریبوں کی آوز بننے کی جنگ ہے جسے کسی بھی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔ اس لڑائی میں وہ عوام، میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ چلتے رہیں گے۔  وہ اپنی آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک عوام کے حقوق کی جنگ جاری رکھیں گے۔  پاکستان کا کوئی فرد یا ادارہ آئین اور قانون سے بالا نہیں۔ پاکستان فوج اور سکیورٹی اداروں کے جوان ملک و قوم کے لئے جو قربانیاں دے رہے ہیں انہیں اس کا مکمل ادراک ہے تاہم  اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حب الوطنی کے نام پر سیاست میں فوج کے غیر آئینی کردار کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لی جائے۔‘‘ آج فوج کا کوئی غیر آئینی کردار خصوصی عینک سے شاید نظر آ جائے۔ عوام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ ملا کر فوج کے خلاف جنگ کی خواہش پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ آپ ہر معاملے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ اعلیٰ پائے کے صحافی کی بڑی اپروچ ہوتی ہے۔ اسے کہیں سے پتہ چل جائے کہ فوج فلاں تاریخ کو سرحد کے اندر یا باہر کوئی اپریشن کرے گی تو کیا غیر جانبداری کے زعم میں اسے خبر بنا کر شائع و نشر کردیا جائے گا؟ میڈیا کی جنگ اس میں تقسیم افسوسناک ہے۔ اس کے ذمہ دار دونوں طرف کے لوگ ہیں۔ یہ انا کے خول، ذاتی مفادات کے چُنگل، فوج یا حکومت کو فتح کرنے کے خبط  سے باہر  نکلیں۔ میڈیا کا کام حکومت چلانا اور قومی پالیسی بنانا نہیں ہے۔ اگر کہیں کجی وکمی نظر آتی ہے تو اداروں اور حکومت کو دھمکانا، ان کے مقابل سینہ تان کر کھڑے  ہوجانا نہیں،انہیں دلیل سے قائل کرکے اپنا نقطہ نظر منوایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے کسی اور کی سوچ اور ایجنڈا نہ ہو ۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...