بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دوطرفہ مذاکرات سے متعلق شملہ معاہدہ کی کوئی حیثیت نہیں رہی

Apr 26, 2015

اداریہ

جکارتہ کانفرنس میں کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے مندوبین میں سخت جملوں کا تبادلہ

جکارتہ میں ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس میں گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے مندوبین کشمیر کے معاملہ پر آپس میں الجھ پڑے اور انکے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ کانفرنس میں شریک پاکستانی وفد کے سربراہ اور مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھارتی مندوب کو باور کرایا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محروم رکھنا ناانصافی ہوگی‘ ہمیں یہ قابل قبول نہیں۔ بھارتی مندوب اٹل واڈوا نے کہا کہ پاکستان نے ایک بار پھر کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا ہے حالانکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور شملہ سمجھوتے اور اعلان لاہور کے تحت دونوں ممالک آپس میں تمام مسائل پر بات چیت کیلئے آمادہ ہیں۔ اس موقع پر سرتاج عزیز نے کشمیریوں کی تحریک کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی اور ناانصافی ہے کہ عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا جاتا ہے مگر حقیقی معنوں میں کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا۔ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور بھارت سمیت دنیا کی کوئی طاقت اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا‘ عالمی برادری ہوش میں آئے‘ کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں اور ان قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائیگا۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی یہ نہیں بھول سکتے کہ برصغیر میں امن کے قیام کا دارومدار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے اور بھارت اس مسئلہ کے حل میں غیرضروری تاخیر سے کام لے رہا ہے۔
پڑوسی ممالک کے مابین دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے اگر باہمی تنازعات کے حل کی جانب عملی پیشرفت ہوتی رہے تو علاقائی امن و سلامتی کیلئے یہی حکمت عملی بہترین ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اگر پاکستان اور بھارت بھی اپنے باہمی تنازعات‘ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرتے تو اس سے علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت ملنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی معیشتیں اور عوام بھی شاہراہ ترقی پر گامزن ہو کر پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے اس خطہ میں مثالی جمہوری فلاحی معاشرہ تشکیل دے کر خود کو دنیا کے مہذب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر چکے ہوتے مگر بدقسمتی سے ہمارے پڑوسی بھارت نے تو بیڑہ ہی ہماری سلامتی ختم کرنے اور اس مقصد کیلئے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اپنے شکنجے میں کسے رکھنے کا اٹھایا ہوا ہے۔ بے شک شملہ معاہدہ میں‘ جو 71ء کی بھارتی جارحیت سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونے کے بعد شکست خوردہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ اسکی ہی شرائط پر طے کیا تھا‘ دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر ہی اتفاق ہوا تھا مگر اس معاہدے کی رو سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پہلے سے موجود یو این سلامتی کونسل کی قراردادیں ہرگز غیرموثر نہیں ہوئی تھیں جبکہ ان قراردادوں میں استصواب کے ذریعے کشمیر کے مسئلہ کا حل قابل عمل اور تمام فریقین کیلئے قابل قبول بنایا گیا اور سلامتی کونسل میں یہ قراردادیں بھی بھارت کی اپنی تحریک پر منظور ہوئیں جو تقسیم ہند کے فارمولے کی روشنی میں پہلے ہی سے کشمیر کے طے شدہ معاہدہ کو دانستاً متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارتی لیڈران نے یو این سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو تو تسلیم کرلیا اور مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا بھی عندیہ دے دیا مگر اسکے ساتھ ہی بھارتی لیڈران نے کشمیر پر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا شروع کر دی اور پھر اپنی اس ڈھٹائی کو آئینی کور دے کر بھارتی آئین کی متعلقہ شق میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ اس بھارتی ڈھٹائی کیخلاف ہی کشمیریوں کے دلوں میں بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک پیدا ہوئی جو لاکھوں کشمیریوں کی جانوں اور ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے ہنوز جاری ہے اور کوئی بھارتی جبر و تسلط یا ترغیب و تخریص بہادر کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکی اور نہ ہی کبھی انکے قدم ڈگمگائے ہیں جبکہ وہ تقسیم ہند سے پہلے سے موجود اپنی ذہنی ہم آہنگی کے باعث اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر چکے ہیں اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں۔ اس صورتحال میں شملہ معاہدہ کی رو سے بھی مسئلہ کشمیر کا قابل عمل اور قابل قبول حل کشمیریوں کے حق خودارادیت سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں پر اسکی روح کے مطابق عمل کرانے سے ہی ممکن ہے اور دونوں ممالک باہمی مذاکرات کے ذریعے وادی کشمیر میں استصواب کے انتظامات اور اسکے طریقہ کار پر اپنے باہمی اختلافات طے کر سکتے ہیں مگر بھارت مسئلہ کشمیر کا حل تو کجا‘ اس کا تذکرہ سننے کا بھی روادار نہیں ہوتا اور مختلف سطحوں پر اب تک ہونیوالے ڈیڑھ سو کے قریب پاکستان بھارت مذاکرات کی میز خود بھارت نے ہی کسی نہ کسی حیلے بہانے سے الٹائی ہے چنانچہ اس صورتحال میں جبکہ بھارت کشمیریوں کو استصواب کا حق دینے کے بجائے انہیں اپنی غلامی اور تسلط میں ہی جکڑے رکھنا چاہتا ہے‘ شملہ معاہدہ انہیں اپنے حق کیلئے کسی عالمی فورم پر آواز اٹھانے سے کیسے روک سکتا ہے۔ کشمیریوں کو بہرصورت حق خودارادیت ملنا ہے جو اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ ہے اس لئے یہ بھارتی کٹ حجتی کسی صورت قبول نہیں کی جانی چاہیے کہ شملہ معاہدہ کی موجودگی میں ہمیں کسی عالمی فورم پر کشمیر ایشو اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جب بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ہٹ دھرمی برقرار رکھتا ہے اور کسی بھی سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کے موقع پر کشمیر کا لفظ سننا بھی اسے گوارا نہیں تو باہمی تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا شملہ معاہدہ کا فلسفہ ویسے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس معاہدے کے ساتھ بندھ کر پاکستان اور کشمیری عوام بھارتی جبروتسلط کے آگے محض خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں اور بھارت کو من مانیوں کا موقع فراہم کرتے رہیں۔ بھارت کی اس نیت کو بھانپ کر ہی تو کشمیریوں نے شروع دن سے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اس لئے کوئی بودا شملہ معاہدہ انکے پائوں کی زنجیر بن سکتا ہے نہ ہی کسی بھی دوسرے ہتھکنڈے سے انکی آواز دبائی جا سکتی ہے۔
درحقیقت کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی نے ہی اسکے عزائم دنیا کے سامنے بے نقاب کئے ہیں اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی مظالم کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ‘ چین‘ یورپی یونین اور یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون کی جانب سے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کی گئی مگر کشمیر کے حوالے سے مخصوص مفادات کے حامل بھارت نے شملہ معاہدہ کی آڑ لے کر ایسی ہر عالمی پیشکش کو رعونت سے ٹھکرادیا ہے۔ اس حوالے سے نریندر مودی کی سربراہی میں قائم موجودہ بھارتی حکومت تو کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی نیت سے پاکستان کے ساتھ آمادۂ جنگ بھی نظر آتی ہے جس کیلئے اس نے کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا تسلسل بڑھا کر سرحدی کشیدگی انتہاء کو پہنچا رکھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو پیغامات بھی دیئے جارہے ہیں کہ وہ کشمیر کو بھول جائے کیونکہ انکے بقول کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے۔ یقیناً اسکے ردعمل میں ہی کشمیری عوام کے دلوں میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی تڑپ مستحکم ہورہی ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرا کر اور اسکے حق میں نعرے بلند کرکے اس تڑپ کا ثبوت بھی فراہم کررہے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتے سے اس پس منظر میں ہی بھارتی افواج کا کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ تیز ہوا ہے اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنیوالے کشمیری قائدین اور عوام کی بے دریغ گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ انہیں گولیوں کے نشانے پر بھی رکھا جا رہا ہے۔ مگر جتنا بھارتی مظالم کا سلسلہ تیز ہوتا ہے اس سے زیادہ کشمیریوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا جذبہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز احتجاجی کشمیریوں پر لاٹھی  گولی کا بھی بے دریغ استعمال کررہی ہیں اور کشمیری قائدین کی گرفتاریوں اور نظربندیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جس کیخلاف مقبوضہ وادی میں گزشتہ روز بھی مکمل ہڑتال رہی جبکہ کشمیری قائدین سیدعلی گیلانی اور شبیرشاہ کو دوبارہ نظربند کر دیا گیا۔ اس بھارتی جبر کی فضا میں بھلا کیسے ممکن ہے کہ شملہ معاہدہ کا ڈھول بجا کر پاکستان اور کشمیری تنظیموں کو کسی عالمی فورم کے سامنے بھارتی مظالم اجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکا جائے۔ بھارت تو مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی تنظیموں کی توجہ خود ہی مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرارہا ہے جبکہ عالمی قیادتیں بھی اس امر کی قائل ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے بغیر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ اس تناظر میں جکارتہ انٹرنیشنل کانفرنس کے موقع پر سرتاج عزیز نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرکے اور کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کا تذکرہ کرکے درحقیقت کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ بھارتی مندوب کا اس پر چیں بجبیں ہونا بھارتی فطرت کے عین مطابق ہے جسے خاطر میں لائے بغیر ہمیں کشمیریوں کی سیاسی‘ سفارتی‘ اخلاقی غرض ہر سطح کی حمایت برقرار رکھنی چاہیے تاکہ یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھایا جا سکے۔ بھارتی ذہنیت دوطرفہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اس مسئلہ کے حل کیلئے پہلے آمادہ ہوئی ہے نہ آئندہ اس کا امکان ہے‘ جبکہ ہم نے اپنی آزادی کے تحفظ اور بقاء کی خاطر اپنی شہ رگ کشمیر کو دشمن کے تسلط سے بہرصورت نجات دلانی ہے کیونکہ اسکے بغیر پاکستان کا وجود مکمل ہو پائے گا نہ حصول پاکستان کے مقاصد پورے ہو سکیں گے۔

مزیدخبریں