کتاب اور کتب بینی ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ زبانوں نے اپنی ترویج کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ’’ہارڈ ڈرائیو کرپٹ‘‘ ہونے کے اندیشوں کے پیش نظر تحریر کو ورق پر ضبط کرنے کی افادیت کو محسوس کرلیا ہے۔ ترقی یافتہ اور علم سے جڑے ممالک میں آج بھی کتاب کے ورق سے رشتے کو کسی حد تک اگلی نسلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ جبی تو انکی نئی نسل کے ہاتھ میں ٹرین کے انتظار کے لمحوں میں ٹرین ٹیوب میں سفر کرتے ہوئے کتاب رسالہ یا موبائل فون کی لفظ کہانی کھلی ہوتی ہے ایک زمانہ تھا جب ہاں گھروں اور ٹرین کے سفر کے دوران اور کچھ نہیں تو ڈائجسٹ پڑھنے کا رواج تھا۔ گزری کچھ دھائیوں میں سوچ کا مرکز اور تمام تر زاویئے بگولا بنے رہے جب آنچ نے آگ لگانے والوں کو بھی جھلسانا شروع کیا تو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا کہ اب کیا کریں؟ زور زبردستی کو مزاج سے نکالنے کیلئے اندر کی صفائی اور فضا کو بدلنے کا آخرش خیال آہ گیا۔ انتہائوں سے نکال کر دل و دماغ کو متوازی راستوں کا راہی بنانا دراصل کھلی آنکھ کے سامنے تمام منظر اجالنے کی خواہش کا مظہر کہا جاسکتا ہے جس سے فکر کا اندازہ بدلنا مقصود ہے۔ سوچ و فکر کو اہل دانش ہی نئی رتوں سے شناسا کر سکتے ہیں اسی لئے کچھ عرصے سے اوپر سے دل کے ساتھ زبانی کلامی لفظ کی حرمت اور کتاب سے رشتے داری بنانے کی بات ہو رہی تھی لیکن اکیڈمی ادبیات نے بھی بیچ کے عرصے میں ’’چپ وٹ‘‘ کے رکھی۔ کبھی کبھار یار بیلیوں کیلئے محافل سجائیں لیکن اس شاہراہ ادب کو عام نہ ہونے دیا ادبی سند بغل میں دبائے رکھی اور دروازے معیار کی محبت نے بند رکھے بھلا ہو نئے چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر قاسم بگھیو کا کم سے کم انکے لاہور آفس میں تو ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اب مختلف ادبی تنظیموں نے آئے دن میلہ سجایا ہوتا ہے۔ انکے باقی دفاتر کے بارے میں علم نہیں لیکن چلتے چلتے ڈاکٹر قاسم بگھیو کی کتاب دوستی کا فائدہ اٹھا کران کے حضور کے ادیبوں، شاعروں دانشوروں پر بھی کرم کی نظر کریں اور وہاں ایک چھوٹا سا ہی سہی، اکیڈمی ادبیات کا دفتر بنا ڈالیں تاکہ وہاں بھی محرومیوں کی آگ کی جگہ امید کے دئیے روشن ہوں۔ امید کے دیئے سے تو ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی بک فائونڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے کتاب میلے میں ان کی سوچ دھمال نے خوب رنگ جمایا ہے۔ کتاب سے محبت کی پینگیں بڑھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ پینگ وہی بڑھا سکتا ہے جو پیپل کی چھائوں تلے جھولا ڈالنے کا ہنر جانتا ہے۔ ویسے بھی بقول عکسی مفتی ہمارے لوگوں کا مزاج میلوں ٹھیلوں کا ہے۔ اوچ مناروں سیمیناروں کا نہیں۔ اور پھر جو 22 اپریل سے 26 اپریل تک نیشنل بک فائونڈیشن کے زیر اہتمام کتاب میلہ بپا ہوا ہے۔ ہماری فلم کی زبان میں پہلے شو سے ہی ہٹ ہو گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات محترم پرویز رشید اورترکی کے سفیر نے پاک چائنہ ٹاور میں میلے کا آغاز کیا۔ پاکستان بھر سے آئے شاعر، ادیب، دانشور اور علم وفن کے کے عشاق کی ترش و شریں سوچ سے ست رنگ بہار کا گماں ہوا۔ ادب کی مختلف اصناف اور پاکستانی زبانوں کے ادب سے متعلق سیر حاصل سیشن دیکھ کر ایک ناقابل بیان خوشی نے سرشار کیا۔ سچ پوچھے تو دن چڑھنے لگتا۔ سکولوں کے بچے جوق در جوق آتے کتابوں کے سٹالز میں کتابیں دیکھتے، بھانپتے سونگھتے اور خرید بھی لیتے۔ ملک کے تمام صوبوں سے بڑے چھوٹے بک پبلشرز نے اپنے اپنے سٹالز پر جو ہجوم دیکھا تو انہیں تو قرار آیا ہی لیکن ہمارے دل میں بھی ٹھنڈی ہوائیں چلیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز کی ڈاکٹر صغرا صدف اپنے سٹال سے پنجاب کے صوفیوں کی کتب کیساتھ ساتھ انکے تراجم کی طرف متوجہ نگاہیں دیکھ کر اپنے تصوف کے مقالے سے کہیں زیادہ خوش نظر آئیں۔ جن لوگوں نے یہ کتاب میلہ دیکھا ہے ان کیلئے بچوں کا بندوق کھلونوں کی بجائے کتاب کیلئے مچلنا ایسے خوبصورت میلوں ہی کا مرہون ہے۔ بڑوں کی دلچسپی کیلئے عطا الحق قاسمی ہی کافی ہے۔سندھی پشتو اور سرائیکی زبان کی کتابوں کیساتھ اردو کتابیں تو ویسے ہی پیامن بھاون رت کے جھولے جھولتی رہیں۔ پاکستان انڈین یہاں تک کہ بین الاقوامی لکھاریوں کی کتابوں کے تراجم۔ ہمیں تو یہی لگتا تھا کہیں پاگل نہ ہوجائیں کیونکہ ملک بھر سے شعرو سخن سے وابستہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ کون تھا جو نہیں تھا۔ انتظار حسین، عطاالحق قاسی، امجد اسلام، اصغر ندیم سید، فرحت پروین، ڈاکٹر صغرا صدف، ڈاکٹر شہباز ملک، مسعود اختر، سحر انصاری، مبین مرزا، انور شعور، زاہدہ حنا، فاطمہ حسن، مونس ایاز شیخ، صلاح الدین مینگل، تابش الواری، ناصر آغا، جہاں آرام تبسم، ناصر علی سعد، پروفیسر نذیر تبسم، خلیق احمد خلیق، حمید شاہد، عکسی مفتی، نیلو فر اقبال، علیم قریشی (بہت سے کچھ نام اگلے کالم میں انشاء اللہ) اردو مشاعرے کو چار چاند لگانے والے محبوب ظفر، اللہ جانے انکے اماں ابا نے ان کو ہم عمروں کو تنگ کرنے کیلئے ان کا نام محبوب رکھا یا… سچ تو یہ ہے کہ ہم مشاعرہ پڑھ کر واپس آگے۔ لفظوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی پھوار ہو سکتا ہے منافرت اور دوریوں کی آگ کو دھیرے دھیرے ٹھنڈا کر دے۔ اگر کبھی ایسا ممکن ہو گیا تو ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی ٹیم تو سمجھئے بخشی گئی۔
کتاب میلہ اور سوچ دھمال
Apr 26, 2015