گوادرپورٹ … کیا خواب پورا ہو گا!

چین کے صدرکے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اقتصادی راہداری اور گوادر بندر گاہ کے حوالے سے اربوں روپے کے معاہدات اور ان پر عملدر آمد کیلئے جو عزم نظر آیا ہے اس نے بھارت سمیت دنیا کے ایسے ممالک جو پاکستان کو معاشی اعتبار سے خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے انکی سازشیں اور ریشہ دوانیاں کھل کر سامنے آنے لگی ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے جمعہ کے دن لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی اس خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین راہداری منصوبے کو سبو تاژ کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں لیکن ایسی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا۔ آٹھ ماہ پہلے چین کے صدر کے دورہ پاکستان کے شیڈول کو دھرنوں کی وجہ سے جس طرح ملتوی کرایا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاستدان چھوٹے چھوٹے مقاصد کی خاطر بین الااقوامی کھلاڑیوں کا مہرہ بن جاتے ہیں۔طاہر القادری اور عمران خان کو دھرنا دینے کا جمہوری حق حاصل تھا لیکن پاکستان کے دیرینہ دوست اور خیر خواہ چین کے صدر کے دورے میں رکاوٹ بننا ان کی دور اندیشانہ قومی سوچ کا کسی بھی طرح مظہر نہ تھی۔اب جبکہ آٹھ ماہ کی تاخیر کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی کے نئے بلیو پرنٹ پر عملد ر آمد کا آغاز ہو چکا ہے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت اور ماہرین ابلاغ کو اس قومی مقصد میں کامیابی کیلئے یک سو ہو جانا چائیے۔پاکستان دنیا کے ان چند خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جنہیں قدرت نے اپنے انمول خزینوں اور عطیات سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم انکا شکرانہ ادا نہیں کر سکے جس ملک میں چاروں موسم ہیں۔ میٹھے پانی کے دریا ہوں، سر سبز و شاداب پہاڑ،ریگستان، معدنی ذخائر،زرخیز مٹی ، انواع اقسام کی اجناس، پھل اور سبزیاں ۔ متحرک افرادی قوت دنیا کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور ایٹمی طاقت۔وہ آج تک دوسروں کے دست نگر کیوں ہے؟ اس معاملے پر بحث تو خاصی طویل ہو سکتی ہے لیکن آج ہم پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر گودار کے صرف ایک پہلو پر گفتگو کرتے ہیں اور وہ گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے جو قدرت کی ایک ایسی بے پایاں عنایت ہے جس کیلئے دنیا کے بڑے سے بڑے ممالک ترستے ہیں ۔ کچھ اس عطیے پر ہمیں رشک اور کچھ حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔گوادر منصوبہ 1960کی دہائی میں تیار ہو جانا چائیے تھا لیکن ناعاقبت اندیش پالیسی سازوں کی ترجیحات درست نہ ہونے کی وجہ سے بندر گاہ کا منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔گوادر کی بندر گاہ کو پاکستان کے مستقبل کی تجارتی اور معاشی لائف لائن کہا جاتا ہے۔پاکستان کے اکثر ترقیاتی منصوبوں ریکوڈک اور سینڈک کاپر مائنز کی طرح یہ منصوبہ بھی بڑے تلخ حقائق لیے ہوئے ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کو موزوں قرار دینے کا فیصلہ 1964میں ہوا۔1965میں پاک بھارت جنگ چھڑنے کی وجہ سے اس جانب ترجیحاً توجہ نہ دی جا سکی۔ ملک کے غیر مستحکم سیاسی نظام، سانحہ مشرقی پاکستان اور سیاسی کھینچا تانی کی بناء پر بھی یہ منصوبہ بھی مسلسل نظر انداز ہوتا رہا۔32 سال بعد1993میں گوادر بندر گاہ کی جانب پھر توجہ دی گئی اور اس بندر گاہ کی تکنیکی اور مالی منصوبہ بندی کا آغاز کیا گیا۔2002 میں اس کی تعمیر کا سنگ بنیاد چین کے نائب وزیر اعظم نے رکھا اور تین سال بعد اس کا افتتاح بھی چین کے وزیر اعظم نے کیا۔بندر گاہ کے افتتاح کے بعد بحری جہازوں کی آمدو رفت شروع ہوئی تو کسی خفیہ ہاتھ نے اس بندر گاہ کے آپریشنل اور انتظامی حقوق 2007میں چین کی بجائے سنگا پور کی جہاز راں کمپنی کو دے دئیے۔ پورٹ آف سنگا پورچھ سال کے عرصے میں اس بند رگاہ کو فعال نہ بنا سکی۔اب جبکہ دوبارہ گوادر کی بندرگاہ کا انتظام و انصرام چین کو دیا گیااور بین الاقوامی اہمیت کے معاہدات پر بھی دستخط ہو چکے ہیں ہمیں باہمی سیاسی اختلافات پس پشت رکھ کر اس عظیم منصوبے کو مکمل ہونے دینا چاہیئے ۔گوادر دنیا کی تیسری قدرتی گہری ترین بندر گاہ ہے ۔حالیہ معاہدوں کے مطابق گوادر کی بندر گاہ سے چین صرف تیل کی ترسیل میں چین کو سالانہ بیس ارب ڈالر کی بچت ہو گی جبکہ پاکستان کو راہداری کی سہولت دینے کی عوض پانچ ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی ہو گی۔گوادر دنیا کے سب سے بڑے تجارتی راستے پر واقع ہے۔ان دنوںجب پی آئی اے کے ذریعے پاکستان سے جدہ جاتے ہیں تو جب جہاز پاکستان کے زمینی علاقے کو چھوڑ کرخلیج فارس میں داخل ہوتا ہے تو وہ گوادر کے اوپر سے گزرتا ہے۔گوادر کی اس قدرتی بندر گاہ کی بناوٹ کو بائیں جانب بیٹھے ہوئے مسافر با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی خوش نما قدرتی بندر گاہ اور گودی کا منظر دنیا کے کسی بھی خطے کو حاصل نہیں۔گوادر بندر گاہ افغانستان اور وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک کیلئے واحد بحری راستہ بھی ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ مل کر گوادر کو انرجی ٹرانسپورٹ ہب بنانا چاہتا ہے۔ چین سنگیانگ سمیت اپنے مغربی صوبوں تک گوادر کے راستے تیل کی پائپ لائن بھی بچھانا چاہتا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ پائپ لائن عرب اور افریقی ممالک سے آنیوالے خام آئل کو چین تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہو گا۔خلیج فارس اور ایران سے تیل اور گیس کی درآمد کیلئے گوادر انتہائی آئیڈیل ٹرانزٹ کوریڈور ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع گوادر کو دوبئی کا متبادل تجارتی مرکز بھی قرار دیا جا رہا ہے۔گوادر کی بندر گاہ کے پوری طرح فعال ہونے اور مواصلاتی نیٹ ورک کی تکمیل کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ایک مثالی اقتصادی کاریڈور میں ہو گا۔ اس بندر گاہ کی بناء پر پاکستان کی بحری تجارت میں تین گناہ اضافہ ہو گا جس سے نہ صرف پاکستان میں معاشی خوشحالی آئیگی بلکہ خطے کے ممالک کو بھی اس کا ثمر ملے گا۔گوادر کی ترقی اور اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل پاکستانی عوام کے خوشحال مستقبل اور ملک کے معاشی اعتبار سے محروم خطوں کی ترقی کی نوید ہے۔ ہمیں اس منصوبے کی تکمیل تک جاگتے رہنا ہے۔ منصوبے کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔

ای پیپر دی نیشن