کراچی (نیٹ نیوز+ اے ایف پی) کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز ٹو میں موٹرسائیکل سوار 2 افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالی ترقی پسند دانشور اور این جی او کی ڈائریکٹر سبین محمود کو ڈیفنس فیز ون کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ نمازہ جنازہ مسجد مصطفی کے باہر ادا کی گئی جس میں ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، وسیم اختر، جاوید جبار سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی جبکہ سبین محمود کے ساتھ گاڑی میں سوار انکی والدہ مہناز محمود جو گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئی تھیں، انکی آغا خان ہسپتال میں حالت بہتر بتائی گئی ہے۔ انکی خواہش پر سبین محمود کی یاد میں انکے ڈیفنس میں مذاکراتی مرکز ’’سکینڈ فلور‘‘ پر تعزیتی ریفرنس بھی منعقد ہوا۔ ادھر ڈیفنس پولیس سبین محمود کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی۔ نامعلوم افراد کیخلاف سبین کی والدہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے ڈی آئی جی کی سربراہی میں 3 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی گئی۔ پولیس نے سبین محمود کیساتھ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھے اور حملے میں محفوظ رہنے والے انکے ڈرائیور غلام عباس کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کر دی۔ دوسری جانب پولیس نے سبین محمود کے قتل کی رپورٹ تیار کر لی جس میں کہاگیا ہے کہ سبین محمود بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے متحرک تھیں اور انہوں نے آخری ٹویٹ ماما قدیر بلوچ سے متعلق کیا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سبین محمود ان 9 صحافیوں میں شامل تھیں جو کالعدم تنظیم کے نشانے پر تھیں، انہیں 6 ماہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں جس کی آخری رپورٹ 22 اپریل کو درج کی گئی۔ ڈرائیور غلام عباس کے مطابق وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ سبین محمود اور انکی والدہ آگے بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں کہ گولیاں چلیں۔ موٹرسائیکل پر 2 افراد تھے، پیچھے بیٹھے شخص نے گولیاں چلائیں تو وہ اپنے بچائو کیلئے سیٹ پر لیٹ گیا اور ٹارگٹ کلرز کو شناخت نہ کر سکا۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم کے 3 خول ملے جنہیں فرانزک لیب بھجوا دیا گیا۔ جائے وقوعہ پر کوئی سی سی کیمرہ نہیں لگا تھا، اطراف کے کیمروں کی فوٹیجز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔دریں اثنا سبین محمود کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کرنے والے بلوچ رہنما ماما قدیر نے اے ایف پی کو بتایا سبین محمود کو دھمکیاں مل رہی تھیں، مجھے تو عرصے سے دھمکایا جا رہا ہے اور صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ ایجنسیاں مجھے براہ راست سرگرمیوں سے روکنے لگی ہیں۔ انہوں نے کہا جب آپ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ لوگ آپکو غدار قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے ترقی پسند دانشور سبین محمود کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ انہوں نے مقتولہ کے خاندان کے نام تعزیتی پیغام میں کہا حکومت سبین محمود کے قاتلوں کو انجام تک پہنچائے گی۔ علاوہ ازیں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ہم مس سبین محمود کے المناک اور افسوسناک قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ اس افسوسناک موقع پر ہمارے دل غمزہ خاندان کے ساتھ ہیں۔ انہوںنے کہا خفیہ ایجنسیوں کو اپنی تمام معاونت تحقیقاتی اداروں کو دینے کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے تک لایا جا سکے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان نے کہا ہے سندھ حکومت نے سبین محمود کے قتل کی تحقیقات عدالتی کمشن کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا سبین انسانی حقوق کی پرعزم علمبردار تھیں انکے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ دریں اثنا امریکہ نے بھی سبین محمود کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ سبین محمود نے پاکستان میں ہمیشہ پسے ہوئے طبقات کیلئے آواز بلند کی جبکہ پیپلزپارٹی نے سبین محمود کے قتل کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے انسانی حقوق کی عملبردار سبین محمود کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی بہادر خاتون تھیں۔ ملالہ نے کہا کہ وہ سبین کی والدہ کی جلد صحت یابی کیلئے دعاگو ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بھی سبین محمود کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے انکے خاندان سے اظہار تعزیت کیا ہے۔