قارئین کرام آج کالم لکھتے وقت ہمارے سامنے بلکہ ہمارے اردگرد قارئین کے اتنے زیادہ خطوط جمع ہیں‘ اتنے زیادہ درد ناک حقائق اور خوفناک سچائیوں سے بھرپور کہ جنہیں پڑھ کر ہمارے دکھ کا قلم سے کالم تک اتر آنا ایک حتمی امر ہے سمجھ نہیں آرہی کس کس خط کا کیا کیا جواب دیا جائے؟ اور اگر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا جواب دیا جائے؟ ہر لکھنے والے کا ایک ہی سوال کہ کیا آج سے چونسٹھ سال پہلے اپنے بزرگوں کی لاکھوں قربانیوں کے بدلے میں ہم عوام کو جو وطن نصیب ہوا تھا کیا وہ صرف خواص کیلئے بنا تھا؟ کیا اس کے حصول میں لا انتہا قربانیوں کا حصہ ڈالنے کے باوجود ہمارے حصے میں کچھ نہیں آیا؟ کیا اسکے سبزہ زار‘ ہیرے جواہرات سے بھرے پہاڑ‘ بہتی چاندی جیسے دریا اور سمندر‘ سربفلک عمارتیں‘ اس کے وسائل سے حاصل شدہ چیونٹیوں کی طرح سڑکوں پر رینگتی ہوئی کاریں‘ محلات‘ مرغ و متنجن‘ رشوت‘ سفارش‘ کمشن‘ سمگلنگ کی کھلم کھلا اجازتیں اور سہولتیں‘ اربوں روپوں سے لبالب بھرے ہوئے بنک کیا یہ سب کچھ امیروں کیلئے مخصوص ہے؟ کیا ہمارا عوام ہونا ہمارا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ ہمارے بچے پوری زندگی آدھا کھائیں؟ ادھار کھائیں‘ گندے جوہڑوں کا پانی پیئں؟ تعلیم کی روشنی سے محروم ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھکے کھائیں؟ مہلک بیماریوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں جبکہ ’’خواص‘‘ اپنی بیماریوں سے پنجے لڑانے کیلئے باہر سے ڈاکٹر منگوائیں یا پاؤں میں سلیپر ڈال کر لندن امریکہ اٹھ جائیں؟ ہماری تنخواہیں صرف اتنی ہوں کہ جس میں صرف بجلی اور پانی کا بل بھی نہ دیا جا سکے جبکہ ان اربوں روپے بنکوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ آخر ہمیں قائداعظم کی عطا کردہ فضاؤں میں سانس لینے کی مہلت اور اجازت کیوں نہیں دی جاتی کیا ہم قائداعظم کے نواسے کی طرح دھرتی ماں کے کچھ نہیں لگتے؟ جو کئی سال پہلے پولیس تشدد سے جاں بحق ہو گیا‘ ہم غریب عوام جو کرپشن کے معنی ہی نہیں جانتے ’’خواص‘‘ کی ساری کرپشن ہمارے سر کیوں (عملاً) مڑھ دی جاتی ہے؟ ہم مٹی سے بھرا آٹا زر‘ جواہر کے مول خرید رہے ہیں جبکہ ’’خواص‘‘ کے زر و جواہر مٹی پر پڑے رلتے ہیں؟ ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کی کرپشن اور خالی خزانے کا شور مچاتی آتی ہے اور اپنے ذاتی خالی خزانے بھرنا شروع کر دیتی ہے آخر ’’خواص‘‘ جیسے سانڈوں کی لڑائی میں ملک کا بوٹا کیوں اکھیڑا جا رہا ہے؟ اگر ’’چور‘‘ چوروں کی رسائی میں نہیں ہیں تو وہ کسر بھی ہم سے پوری کر لیں آئیے ہم غریبوں کے خلاف ’’غربت‘‘ کے مقدمے دائر کریں‘ ہمیں پھانسی کی سزا کا حکم دیں ہم عدالتوں میں جواب دینے کیلئے تیار ہیں وہ وقت گیا جب خود خلفائے راشدین عوامی عدالتوں میں جوابدہ ہوتے تھے۔ جناب والا مہنگائی اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں غریب اپنا ہاتھ اپنے ہی منہ تک نہیں لے جا سکتے ہیں ہر روز کروڑوں روپے خرچ کرنے والے ہمارے مسلمان حکمران (بوریا نشین) کیا جانیں کہ ہر روز کتنے دریاؤں کے کنارے کتنے کتے بھوکے مر جاتے ہیں یا زندگی جب موت و حیات کے درمیان معلق ہو جاتی ہے تو اسے زندہ خود کشی کہتے ہیں سارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اونچے ایوانوں کے سفید جھاگ جھاگ پردوں کے پیچھے سے بھوکے عوام کسی کو نظر نہیں آتے جبکہ رحمت اللعالمینؐ کے دروازے پر لٹکتے ہوئے موٹے بورے کے پیچھے سے کندھوں پر آٹے کے بورے لاد کر آدھی رات کو خلفائے راشدین عوام کے دروازوں تک جاتے ہوئے شفاف نظر آتے تھے۔ اسی طرح ’’سیاست‘‘ جیسا کوئی پیچیدہ لفظ بھی مذہب اسلام میں موجود نہیں ہے یہ سیاسی تخریب کاروں کی ذاتی تخلیق ہے۔ یہ جاں بہ لب عوام کے مسائل کو سیدھا سیدھا حل کرنے کے بجائے لفظوں کی جادوگری اور لاروں کی بازی گری میں الجھا کر اپنے مفادات کے تحفظ کا نام ہے۔
بہرحال قارئین کرام ہم نے آپ کے تمام دکھ درد‘ خواہشات اور خدشات اپنے الفاظ میں ڈھال کر ’’بڑے بڑے‘‘ کانوں‘ ایوانوں اور گریبانوں تک پہنچا دئیے ہیں آگے آپ کا مقدر ویسے اگر ’’خواص‘‘ آپ کے خاص خاص نکات پر توجہ دینا چاہیں تو وہ بھی ہم مختصراً لکھ دیتے ہیں آپ چاہتے ہیں!
غیر معمولی امیر کبیر وزیروں کے جتھوں کو فارغ کیا جائے عوام انہیں اپنی جیب سے تنخواہ نہیں دیں گے۔
ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس یعنی دونوں جھونپڑے بیچ کر ملک کے غریبوں کے پیٹ میں چارہ بھرنے کا چارہ کیا جائے۔ ملکی مسائل کو اپنے وسائل میں رکھیں نہ کہ تمام تر ملکی وسائل کو اپنے میٹھے مسائل حل کرنے میں جھونک دیں۔سیاستدان اور حکمران اپنی زبانیں بند رکھنے کیلئے ماہرین نفسیات سے مشورہ کریں جنہوں نے بول بول کر عوام کا دماغ چاٹ لیا ہے اور عوام کے خرچے پر ذاتی جھگڑے کر کرکے ان کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے بلکہ ان کو اعصابی مریض بنا دیا ہے خود بڑے بڑے خوابناک ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کی بے بسی پر کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ ایسے قومی قرضداروں‘ رشوت خواروں‘ اور ٹیکس نادہندگان کا ستھرا حساب کرکے عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ہو سکے اور وہ بے حسابی کرپشن نہ کر سکیں۔ ’’اور جان رکھو رب العالمین ہی سب سے بڑا حساب لینے والا ہے تم اسے عاجز نہیں کر سکے‘‘ (القران)