آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے احکامات پر سینئر ترین کرپٹ فوجی آفیسروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق سزائوں کا نفاذ کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل عبید اللہ خٹک، میجر جنرل اعجاز شاہد اور چند بریگیڈیئرز اور کرنلوں کو ان کے عہدوں سے جبری برخاست کرکے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ ’’آرمی لیکس‘‘ کے مطابق (جن کے ذرائع خفیہ رکھے گئے ہیں کہ فوجی ترجمان نے باضابطہ کچھ نہیں کہا) ان سے کرپشن کی بھاری رقوم وصول کی گئی ہیں اور سروس کی فوجی مراعات وغیرہ واپس لے لی گئی ہیں جن میں پلاٹ یا زرعی زمین شامل ہے البتہ پنشن اور میڈیکل ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملے گا۔
جنرل راحیل شریف کے فوجی اندرونی کڑے احتساب کی ’’مثالوں‘‘ کو قابل ستائش قدم قرار دیا گیا ہے لیکن کچھ سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں مثلاً فوجی ترجمان یہ بتانا پسند کریں گے کہ جرنیلوں، بریگیڈیئرز، کرنلوں پر وہ کون کون سے سنگین الزامات تھے جن کی وجہ سے انہیں سخت سزائیں ملیں؟؟ کرپشن ہر آفیسر نے کتنی کی؟ کروڑوں، اربوں، لاکھوں میں؟؟ کیا کرپشن کے علاوہ بھی ’’آپریشن‘‘ (ایف سی بلوچستان) کے آفیسروں نے اختیارات سے تجاوز، لاپروائی، غفلت کا مظاہرہ کیا؟؟ اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا سینئر فوجی آفیسران (جبری ریٹائر) سے کرپشن کے کروڑوں روپے کے نقصان کی تلافی پوری ہو گئی ہے؟؟ مثلاً کسی نے 10 کروڑ ہڑپ کیے تو دس کروڑ کے پلاٹ یا زمین یا نقد واپس سرکاری خزانے میں جمع ہو چکے؟؟ یا نیب والا فارمولا؟؟ ’’پلی بارگین‘‘ ٹائپ؟؟ اور کیا صرف مال واپس لینے سے ’’سزا‘‘ مکمل ہو گئی یا قید کی سزا بھی دی گئی یا دی جاتی؟؟
ہمارے فوجی نظام کے اندر سخت قانونی کارروائی مختلف سطح کے درجہ بہ درجہ ’کورٹ مارشل‘‘ (اس کی کم از کم تین اقسام ہیں) سے کی جاتی ہیں۔ جبری ریٹائرڈ آفیسروں پر بھی ’’فوجی قانون‘‘ اور ’’عدالت‘‘ کا نفاذ قومی ادارے میں دوسروں کے لیے ’’سبق‘‘ہے۔ ’’آرمی لیکس‘‘ کرنے والوں نے ’’بہت اچھا، زبردست‘‘ کے سول سوسائٹی سے اعزازات لے لیے لیکن قومی میڈیا پر کچھ تجزیہ کاروں، اینکرز نے بھی اور کالم نگاروں نے اشاروں میں سوال اٹھا دیئے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا ہے کہ باضابطہ فوجی ترجمان کا بیان کہیں نہیں ہے۔ اس لیے ان سزائوں کے افشاء کرنے کی ٹائمنگ اور جرنیلوں کے بلاامتیاز احتساب کے حوالے سے خدشات، امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو درست ہے۔ سیاستدانوں کا ’’احتساب‘‘ تو ہوتا ہی ہے کبھی وزیر اعظم بھٹو کو ’’عدالتی احتساب‘‘ بہ حکم مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے کبھی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا جاتا ہے کبھی نواز شریف کو صدر اسحق خان کے ساتھ جنرل کاکڑ کے حکم پر ’’گھر‘‘ بھیجا گیا کبھی آرمی چیف مشرف کو ہٹانے اور نیا آرمی چیف مقرر کرنے پر سنگین احتساب اور جہاز کے اغواء کا مقدمہ بنا کر نشانہ بنایا گیا یہ سب ’’احتساب‘‘ کی قسمیں ہیں۔ 1999ء کے بعد ایک ’’جرنیلی احتساب‘‘ سے پہلے ’’کڑا کے‘‘ نکال کر نظر بندیاں، قید تنہائی، دھمکیاں، جیلیں، ہتھکڑیاں، ’’کچھ ادا کرو باقی معاف‘‘ کے بے اصولی کے ’’پل بارگین‘‘ پھر نواز لیگ سے ’’پکی توبہ‘‘ کرانے کا جرنیلی احتساب وہ بھی ’’سیاسی نشانہ بازی‘‘ کے احوال پر نہ کہ میرٹ، ضابطے، اصول پرستی کے طریقے۔ یہ جرنیلی احتساب اور بعد ازاں جرنیلی صدارت یا چیف ایگزیکٹو عہدہ برقرار رکھنے یا آرمی چیف کی ’’تابعداری‘‘ کے اصول منوا کر سینکڑوں ملزموں، کرپٹ کمشن خور، حرام خور، قانون شکن، مقدمات میں ملوث افراد کو این آر او NRO کے جرنیل شاہی قانون سے بری کروا دیا گیا۔ یہ شرمناک جرنیلی احتساب ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا!! ایک ہوتے تھے ایڈمرل منصور الحق!! یہ کئی کروڑوں کی کمشن، کرپشن میں مجرم ثابت ہوئے مگر کیا ہوا جنرل مشرف کی دو مرتبہ آئین شکنی کو اکثر فوجی کمانڈرز مانتے ہی نہیں ’’بلاامتیاز احتساب‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے اگر اصول پرستی کے علمبردار بن سکتے تو کرپشن سے بڑا جرم آئین نے ہی آئین شکنی قرار دیا ہے۔ کرپشن پر آئین نے سنگین غداری کی سزا مقرر نہیں کی۔ کرپشن کے احتساب سے کیسے انکار ہے؟؟ من پسند احتساب کیوں؟؟ ’’احتساب‘‘ تو ہر بڑے قانون شکن کا ہونا چاہیے ریاست کے قانون کا اطلاق پہلے بڑوں پر کرنا لازم ہے۔ سیاستدانوں پر ’’وردی والوں‘‘ کا پہلے ہی بہت ’’دبائو‘‘ ہے۔ مثال جنرل (ر) مشرف کا نام نہاد ’’علاج‘‘ کے لیے باہر جانا اور غیر حاضری میں دو عدالتوں سے وارنٹ گرفتاری اور 22مئی تک عدالت پیشی کے احکامات ’’بلاامتیاز احتساب‘‘ مشرف پہ لاگو کیوں نہیں ہوتا؟؟ کوئی دلیل کوئی جواب؟؟ انٹرپول سے وزیر داخلہ مشرف کو لا کر دکھائیںنا!!
’’بلاامتیاز احتساب‘‘ کے تاریخی پہلو اور مستقبل
Apr 26, 2016