”لوٹ مار کہاں سے شروع ہوئی؟“

لوگ اکثر یہ بحث کرتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر بدعنوانی کب شروع ہوئی ‘ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد متروکہ جائیدادوں کی الاٹ منٹ یا سیٹلمنٹ سے بدعنوانی کا آغاز ہوا‘ اس دور میں جعلی کلیمز کے ذریعہ جائیدادیں ہتھیا لی گئیں اس دور کی حکومتوں میں شامل بعض سرکردہ شخصیات نے جائیدادیں بنا لیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بدترین مخالف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان جیسا دیانت دار ‘ ایمان دار اور صاحب کردار سیاسی راہنما شاید ہی کوئی گزرا ہو‘ قائداعظم نے اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں یہ ضرور کہا تھا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے موجود ہیں لیکن ان کے ساتھیوں میں اکثر دیانت دار اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے نوابزادہ لیاقت علی‘ سردار عبدالرب نشتر‘ راجہ صاحب محمود آباد اور اسی طرح کے کتنے نام ہیں جن کی دیانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لئے کیا قربانیاں دیں‘ 16 اکتوبر 1951 ءکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جب لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا اور ان کی لاش پوسٹمارٹم کے لئے ہسپتال پہنچائی گئی اور ان کی شیروانی اتاری گئی تو پتہ چلا کہ انہوں نے جو قمیض پہنی ہوئی ہے وہ رفو کی گئی ہے ان کی جرابوں میں بھی سوراخ تھے اور ان کا بینک بیلنس صرف 54 روپے تھا وہ نواب خاندان سے تھے ان کے آبا¶اجداد کی ملکیت میں تین سو گا¶ں تھے نواب رستم علی خان کے صاحبزادے نواب زادہ لیاقت علی خان اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں وہ قتل کر دیئے گئے ان کے جانشین خواجہ ناظم الدین پر بھی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا گورنر جنرل غلام محمد پر سیاسی بدعنوانی کا الزام تو تھا ان کی اخلاقی کمزوریوں کے بھی چرچے تھے لیکن مالی بدعنوانی کا ان پر کوئی الزام نہیں تھا ان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم جن میں محمد علی بوگرہ ‘ چودھری محمد علی‘ حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون شامل تھے پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا حسین شہید سہروردی کے بارے میں تو پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سہروردی کو اپنی پارٹی عوامی لیگ کے جو لیڈر اور کارکن ملنے آتے تھے ان کی کراچی کے وزیراعظم ہا¶س میں کھانے یا چائے سے تواضع کرتے تھے تو مہمان نوازی پر اٹھنے والے اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اور اگر کوئی سرکاری افسر ان سے کہتا تھا کہ وزیراعظم کے مہمانوں کی تواضع پر ہونے والے اخراجات کو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں تو سہروری جواباً کہتے تھے کہ ”بابا ملک بہت غریب ہے وہ ان اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا“۔
پاکستان کے سابق وزیر دفاع اور صدر میجر جنرل سکندر مرزا پر یہ الزام تو تھا کہ وہ ایک سازشی شخص ہیں اور پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے خلاف سازش میں لگے رہتے ہیں سکندر مرزا نے ہی پاکستان میں مارشل لاءکے لئے راہ ہموار کی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958 ءمیں پاکستان میں مارشل لاءلگا دیا لیکن سکندر مرزا پر بھی مالی بدعنوانی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا‘ سکندر مرزا ملک چھوڑکر چلے گئے اور لندن میں ایک ہوٹل کے مینجر کے طور پر ملازمت کی اور وہیں وفات پائی۔
ایوب خان کے مارشل لاءمیں سیاستدانوں کا احتساب ہوا اور (ایبڈو) قانون کے تحت ان پر پابندیاں لگیں لیکن حکومتی عہدوں پر فائز رہنے والے سیاست دانوں پر بینکوں کے قرضے ہڑپ کرنے ‘ کمشن کھانے یا پیسہ بیرون ملک بھیجنے کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسٹر بھٹو پر اپنی پارٹی میں اختلاف رائے کو کچلنے اور مخالفت سیاست دانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے الزامات لگے۔لیکن مسٹر بھٹو پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگا‘ جنرل ضیاءالحق کے ”پہلے احتساب اور پھر انتخاب“ کے پروگرام کے تحت معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان والوں پر سرکاری خزانے کولوٹنے کا کوئی الزام نہیں تھا۔ مسٹر بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو آٹے اور چینی کے ڈپو دینے کا الزام تھا۔ پارٹی کے کارکن آٹے چینی‘ مٹی کے تیل یا سیمنٹ کے ڈپو¶ں کے ذریعہ چند ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ بھٹو کی کابینہ کے ارکان کے خلاف بھی لوٹ مار کا کوئی بڑا کیس سامنے نہیں آیا۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھٹو مخالف سیاستدانوں کو سرکاری مراعات ملنا شروع ہوئیں بڑے پیمانے پر اس دور میں بنکوں کے قرضے دیئے گئے اور اس دور میں ان کو قرضوں کی معافی کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات نے پاکستان میں بدعنوانی کے دروازے کھولے۔ ان غیر جماعتی انتخابات میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی مہم پر امیدواروں نے کروڑوں روپے لگائے تب سے اب تک ہر آنے والا الیکشن پچھلے کے مقابلے میں مہنگا ہوتا چلا آرہا ہے۔
1985ءکے بعد صرف ایک منتخب سیاست دان ایسا تھا جس کا دامن اجلا رہا۔ یہ محمد خان جونیجو تھے ان کے دور میں بدعنوانی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو انہوں نے وزیراعظم ہا¶س کے کھانے کے اخراجات جو لاکھوں روپے ماہانہ تھے کم کرائے۔ وزیراعظم جونیجو نے ناشتے‘ لنچ اور ڈنر میں پیش کی جانے والی ڈشوں میں کمی کا حکم دیا۔ ان کے دور میں ہی جرنیلوں کو بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ وزیراعظم جونیجو نے اپنی کابینہ کے دو وزراءبلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیر تجارت پرنس محی الدین اور اپنے ایک معتمد ساتھی وزیر بلدیات چوہدری انور عزیز کو بے قاعدگیوں کے الزام میں کابینہ سے برطرف کر دیا۔ جنرل ضیاءالحق جونیجو کی ان پالیسیوں سے نالاں تھے 29 مئی 1988ءکو انہوں نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کیا یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے انہیں یہ موقع نہ دیا۔
1988ءکے بعد بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے پر قومی خزانے کو لوٹنے کے الزامات لگاتے رہے۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو حکومتیں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں برطرف ہوئیں۔ نوے کی اس دہائی میں پہلی مرتبہ آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھنے کے الزامات بھی سامنے آئے۔ بیرون ملک بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر سرے محل اور دوسری جائیدادیں بنانے کا الزام لگا۔ جنرل مشرف کے ابتدائی ایک دو سالوں میں بدعنوانی پر کنٹرول ہوا لیکن جب اپنے پیش رو جرنیلوں کی طرح وہ سویلین صدر بنے تو پھر جنرل مشرف کی حکومت کرپشن کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ 2008ءمیں آصف زرداری کی قیادت میں بننے والی پی پی پی حکومت نے تو حد ہی کردی۔ 2013ءکے بعد نوازشریف حکومت پر بھی اپوزیشن کرپشن کے الزامات لگاتی رہی ہے۔ اب پانامہ پیپرز کے سامنے آنے کے بعد تو بہت زیادہ شور مچ گیاہے پاکستان کے عوام اب تو ”پرانے“ ادوار کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اچھا تھا۔ اس زمانے میں سیاست دانوں اور سرکاری افسروں پر ہزاروں اور لاکھوں روپے کی خوردبرد کا الزام لگتا تھا لیکن اب تو اربوں اور کھربوں سے کم بات نہیں ہوتی۔پاکستان کے عوام اب تو کسی دیانتدار لیڈر کے لئے ترس گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن