ُُُٓپاکستان کا تجارتی منظر

قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں-معیشت کا انحصارمحض زراعت پر تھا۔ بجلی کی پیداوار کے وسائل بھی کم تھے۔ خدمات(سروسز) کے شعبے میں بندرگاہ‘ مواصلات اور بینکاری کا نظام غیر معیاری تھا۔ آزادی سے قبل انگریزوں نے آبپاشی کا ایک وسیع نظام قائم کر دیا تھا جو کم بارانی علاقوں میں کاشتکاری کا ذریعہ تھا۔ چنانچہ آمدنی کا بڑا ذریعہ زراعت ہی تھا۔ غربت کم کرنے کیلئے اس وقت کی قیادت نے اقتصادی ترقی کیلئے صنعتوں کے فروغ کو ایک بنیادی ضرورت سمجھا اوراس کیلئے ضروری منصوبہ بندی کی گئی - واضح ایجنڈا کے ساتھ اقتصادی منصوبہ بندی کیلئے متعدد ادارے بنائے گئے جن کی سفارشات پر کلی طور پر بوجوہ عملدرآمد نہ ہو سکا یعنی مصدقہ اعداد و شمار کی عدم دستیابی،تربیت یافتہ افراد کی کمی،سیاسی عدم استحکام و فوجی مداخلت اور اقتصادی پالیسیوں کا عدم تسلسل۔ تمام مسائل کے باوجود قیام ِ پاکستان سے لے کر اب تک اقتصادی نمو کی شرح تقریبا 5 فیصدسالانہ رہی جو کچھ سالوں میں10 فیصد کے لگ بھگ بھی تھی۔تاہم ترقی کی یہ رفتار آبادی میں اضافہ کی رفتار سے جو اوسطا ً 3.4 فیصدتھی خاطر خواہ نہ رہی ۔آیئے ان اشاریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں جو کسی بھی ملک میں اقتصادی سر گر میوں کے درجے کا تعین کرتے ہیں۔
ٓٓٓGDP (جی ڈی پی)
شروع کے سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی کا انحصار بنیادی طور پر تجارت پر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صنعت کاری میں اضافہ ہوا اور تجارت کا حجم بھی بڑھتا گیا- یوں پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتار جا ری رہی- 1960 میں جی ڈی پی تقریبا ً 3.7 ارب ڈالر تھی جو بڑھ کر 1980میں 19.7 ارب ، 2000 میں 63 ارب، 2010 میں 178 ارب اور 2015 میں 271 ارب ڈالررہی۔ اس دوران چند سالوں میں کساد بازاری کے باوجود ترقی کی رفتار عمومی طور پر مثبت ر ہی۔جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں مختلف شعبوں کا کردار رہا ہے۔ آزادی کے وقت پاکستان کی معیشت کا انحصار زر اعت پر تھا۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 1960میں تقریباً 48 فیصد جبکہ صنعتوں کا صرف 14 فیصد اور خدمات کا38 فیصد تھا۔ بعد ازاں صنعتی ترقی کے باعث 2015میںیہ حصہ صنعت سے 29 فیصد ، خدمات سے 52 فیصد اور زراعت سے 19فیصد رہا ۔
یہ رحجان مثبت ہے لیکن اس میں ترقی کی گنجا ئش موجود ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ بڑی صنعتوں کا حصہ چھوٹی صنعتوںکے مقابلے میں زیادہ نمایاں رہا۔ صنعتی ترقی ہنر مند افرا داور برآمدات میں اضا فے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
تجارت
انگریز راج کے دوران دو تہائی سے زیادہ آباد ی کا ذریعہ معاش زرا عت تھا- اسی کے پیشِ نظر انگریزوں نے آبپاشی کے لئے ایک نہایت اعلیٰ نہری نظام بنایا۔تاہم اس شعبہ میںترقی محدود تھی۔ ادھر ہمسایہ ملک بھارت نے بھرپور توجہ برآمدات پر مرکوز رکھی جو زیادہ تر خام مال، کپاس، ریشم، گندم، چائے، تمباکو، کھالیں، قالین بانی میں استعمال ہونے والی اون، پٹ سن اور اس سے تیار ہونے والی اشیاء پرمبنی تھیں ۔ ساتھ ہی اسکی ترجیح صنعتی ترقی پر تھی۔ اسکی بڑی درآمدات میں فوجی آلات، مٹی کا تیل ‘ او ر دیگر متفرق اشیاء مثلاََ ہارڈ ویئر، آلات، مشینیں ، گاڑیاں، کاغذ اور کیمیکلز وغیر ہ شامل تھیں۔ آزادی کے وقت دونوں ممالک کے درمیان لوگوںکی نقل مکانی ہوئی۔پاکستان کے پاس وہ علاقے آئے جو زرعی تھے اور خام مال پیدا کرتے تھے۔ پاکستان کو صنعتوں کا بہت معمولی حصہ ملا جو برِ صغیر کی کل صنعتوں کا اندازاََ 5 فیصد فیصد بنتا ہے۔ پاکستان میں آباد ہونیوالے چند افراد نے جن کے پاس کچھ سرمایہ تھا تجارت شروع کی جو بنیادی طور پر درآمدات پر مشتمل تھی۔ یہ زیادہ تربھارت کے ساتھ تھی جو بعد ازاں جلد ہی منقطع ہو گئی۔ اوائل کی دو دہایئوں میں تجارتی سرگرمیاں بہت محدود تھیں۔ 1950 اور 1960کی دہایئوں میں متبادل درآمداتی پالیسی کے تحت پاکستان نے اپنی توجہ اس جانب مرکوز کی جس کے تحت ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایسی اشیاء درآمدکی جاتی تھیں جو مقامی سطح پر تیار نہیں کی جا سکتی تھیں۔ اس سلسلے میںحکومت کی کوٹہ سسٹم، محصولات، زرِ مبادلہ کی شرح اور شرحِ سود کو موثر طور پر استعمال کرنے کی پالیسیوں سے مقامی صنعت کو فروغ ملا اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ بعد ازاں 1970 میں برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دی گئی۔ تجارتی سرگرمیوں اور ان پر اثر انداز ہونے والی پالیسیوںکا جائزہ لینے کیلئے درج ذیل عوامل پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔
درآمدات
پاکستان کے ابتدائی ایاّم میں خاطر خواہ صنعتی شعبے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو درآمدی اشیاء پر انحصار کرنا پڑا۔ محدود وسائل کے پیشِ نظردرآمدات کو کم سے کم سطح پررکھا گیا۔ یہ سلسلہ دوسرے عشرے میں بھی جاری رہا۔ بعد ازاں درآمد ات میں سال بہ سال اضافہ ہوتا رہا۔ 1960 اور 1970 کی دہا ئی میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی جس کے تحت درآمد کی جانے والی اشیاء کا متبادل مقامی طور پر ہی پیدا کیا جانا تھا۔ بعد میں برآمدات بڑھانے کی پالیسی بنائی گئی - پاکستان کا درآمدی بل جو 1960میں3 ارب روپے تھا بڑھ کر 1980 میں 52 ارب ، 1990 میں 160 ارب، 2000 میں 580 ارب اور 2015 میں 4,500 ارب روپے ہو گیا۔ درآمد کی جانے والی اشیاء میں بنیادی طور پر خام مال ‘ صاف شدہ تیل کی مصنوعات‘ مشینری‘ کیمیکل ‘ ٹرانسپورٹ کے آلات اور خوردنی تیل شامل تھیں۔
برآمدات
پاکستان میں بر آمدات کا آغاز بہت محدود پیمانے سے ہوا ۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ان برآمدات میں زیادہ تر خام مال شامل تھا -۔ جیسے جیسے صنعت کاری کا فروغ ہوا، بینکنگ اور تجارت کو تقویت حاصل ہوئی اور برآمداتی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں ۔تاہم مالی لحاظ سے برآمدات کا حجم ہمیشہ درآمدات کے حجم سے کم ر ہا لہٰذا ملک کو تجارتی خسارے کا سامنا رہا - اس خسارے کو کم کرنے کیلئے 1950اور 1960 کے عشروں کے دوران درآمدی متبادل پالیسی نافذ کی گئی۔ 1970میں برآمدات بڑھانے کی پالیسی پر زور دیا گیا - برآمدات میں کپاس و ملبوسات، قالین، دریاں اور چاول شامل ہیں جو متحدہ عرب امارات، عوامی جمہوریہ چین،ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کو برآمد کئے جاتے ہیں- 50 فیصد سے زائدبرآمدات ٹیکسٹائل کی مصنوعات ہیں اور اس میں د ھاگہ سرِ فہرست ہے۔
تجارت میںتوازن
بدقسمتی سے پاکستان کو شروع سے ہی تجارتی خسارے کا سامنا رہا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ یہ خسارہ 1960کی دہائی میں 1.2 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 1980 کی دہائی میں 27 ارب اور 2000 کی دہائی میں 90 ارب روپے ہو گیا۔ 2015 تک یہ تجارتی خسارہ 2,275 ارب روپے ہو گیا ہے -
تجارت کی فضا
تجارتی فضا کبھی بھی پاکستان کے حق میں نہیں ر ہی۔ چند ابتدائی سالوں کے علاوہ پاکستان کی درآمدات ہمیشہ برآمدات سے زیادہ رہیں نتیجتاً زرِ مبادلہ کا فقدان رہا ۔
لیس للا نسان الا ماسعیٰ
انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی

ای پیپر دی نیشن