ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والے شعر و ادب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں، اس لئے جب وہ زبانی یا تحریری اظہار خیال کرتے ہیں تو اشعار یا ادبی کتب کے حوالے ان کی نوک زبان پر آ جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی نہایت سلیقے سے اچھے اشعار پڑھتے ہیں جب کہ ان پڑھ حضرات رکشا یا ٹرک مارکہ اشعار کا حوالہ دے کر گزارا کر لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اسمبلیوں میں بحث چلتی ہے حالانکہ بحث کے دوران اور بہت کچھ چل جاتا ہے اور بحث بے چاری معزز اور مہذب اراکین اسمبلی کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ہماری اسمبلیوں، عدالتوں، ٹی وی ٹاک شوز اور مذاکروں میں اشعار اور ادبی جملے کوٹ ہوتے ہیں۔ تایا میر، چچا غالب اور علامہ اقبال تو امرت دھارا ہیں اور ہر موقع پر اور صورتحال میں اظہار خیال کرنے والوں کی مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ بہت سے موقعوں پر احمد فراز اور پروین شاکر کے اشعار کام آتے ہیں ہم سوچتے ہیں کہ اگر احمد فراز اور پروین شاکر دنیا میں تشریف نہ لاتے تو خدا جانے اظہار خیال کرنے والوں کا نہ جانے کیا حال ہوتا۔ جب ان شعراء اور دیگر ادیبوں کے اشعار اور جملے ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے آن ائر جاتے ہیں تو ہمارے دیگر بہت سے شاعروں اور ادیبوں کی بیگمات، ان کے بچے، عزیز و اقارب، دوست احباب اور محلے دار ا شاعروں اور ادیبوں سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی ساری کوششیں اور کاوشیں یعنی صبحیں، دوپہریں، شامیں، راتیں، وقت اور صحبتیں شعر و ادب تخلیق کرنے پر ، صرف کر دی ہیں۔ لیکن آپ کے اشعار اور جملے سیاستدانوں اور جج صاحب کی زبانوں پرنہیں چڑھتے بیگمات تو اپنے اچھے بھلے شوہر شاعروں سے کہتی ہوں گی کہ آپ نے شاعری نہیں کی، گھاس کاٹی ہے۔ یہ تمہید اس لئے باندھنا پڑی کہ پاناما کیس کے فیصلے کا آغاز ماریو پوزر کے مشہور ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کے ایک جملے سے ہوتا ہے کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے‘‘ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد بند کرنے کے لئے کال دی تھی اور تحریکی ایکشن اور حکومتی ری ایکشن شروع ہوا اوربات آگے بڑھنے لگی تھی تو ہماری معزز و مؤقر ترین عدالت نے دونوں پارٹیوں کا مؤقف سننے کے لئے انہیں طلب کر لیا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے عدالت کو لکھ کر یقین دہانی کرائی تھی کہ پاناما کیس کا جو فیصلہ بھی آئے گا، ہمیں منظور ہو گا۔ فیصلہ آیا تین دو معزز جج صاحبان کے الگ الگ خیالات کے حساب سے اب دونوں پارٹیوں نے معزز ججوں کو تقسیم کر لیا اور خوشیاں منانے کا آغاز کر دیا۔ نوازشریف صاحبان، ان کے وزیروں ، مشیروں اور ورکروں نے مٹھائیاں کھانے کا آغاز کر دیا کہ وہ جیت گئے ہیں اور تین ججوں پر یقین رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف والوں نے بھی مٹھائیاں کھانے اور تقسیم کرنے کا عمل شروع کر دیا کہ وہ دو ججوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ حلوائی پانچوں معزز ججوں کے حوالے سے مٹھائیاں فروخت کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس فیصلے کے خوشی میں لڈوئوں کی تقسیم بھی ہوئی ہوگی۔ ن لیگ والوں نے ججوں کی تعداد کے مطابق تین تین لڈو تقسیم کیے ہوں گے اور پی ٹی آئی نے دو دولڈوئوں کے ساتھ مبارکیں دی ہوں گی۔ کتنے ماہ سے کتنے ٹھمکے، کتنے بھنگڑے، کتنی لڈیاں اور کتنی دھمالیں رکی ہوئی تھیں۔ مسرت وفرحت کی ان ساعتوں کے ٹھمکوں، بھنگڑوں، لڈیوں اور دھمالوں نے عدالت عظمیٰ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہیں ن لیگ اورتحریک انصاف کے ’’ورکروں‘‘ اور ’’ورکریوں‘‘ کے ذریعے نکاسی کا راستہ مل گیا ہے۔
معروف انشائیہ نگار ڈاکٹر منور عثمانی صاحب نے ایک حقیقی واقعہ سنایا کہ ان کے ایک جاننے والے کا فرزند پڑھائی میں کمزور تھا، بی اے میں دو مرتبہ فیل ہوا۔ تیسری مرتبہ امتحان دیا تو گزٹ دیکھا تو وہ سب مضامین میں پاس ہوچکا تھا۔ جب کہ اس کے لائق دوست ایک ایک دو دو مضامین میں فیل ہوچکے تھے۔ پاس شدہ لڑکے کے والدین خوش حال تھے۔ انہوں نے مضامین کی تعداد کے مطابق بکرے منگوائے اور دیگیں پکواکر جشن برپا کردیا۔ انہوں نے خوشی کے اس موقع کو بکروں کی پکوائی تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ اسے رقاصائوں کی نچوائی تک لے گئے اور ہزاروں روپے نچھاور کردئیے۔ پاس ہونے والے طالب علم نے ہرطرف سے مبارکبادیں وصول کیں۔ چند روز بعد اسے یونیورسٹی کی جانب سے ایک چٹھی موصول ہوئی۔ اس میں لکھا تھا کہ اپٓ کا رزلٹ گزٹ میں غلط چھپ گیا تھا۔ آپ کا اصل رزلٹ کارڈ یہ ہے اور آپ فیل ہوچکے ہیں۔ ہمارے ایک دوست خالت محمود صاحب نے بتایا کہ میں بارہ بجے کے قریب گھرپہنچا تو اچانک میرے معدے سے آوازآئی۔’’بھوک نہیں ہے‘‘۔ میں بہت حیران تھا کہ معدے کوبھی زبان مل گئی ہے۔ حسب معمول بیگم صاحبہ نے کھانا لگادیا اور حکماً فرمایا۔ کھانا کھالیجئے۔‘‘
میں نے کہا۔’’میں پہلے پاناماکیس کا فیصلہ سنوں گا، پھر کھانا کھائوں گا‘‘ خالد صاحب کی بیگم صاحبہ نے حیرت سے کہا’’معدے اور پاناماکیس کا آپس میں کیا تعلق ہے‘‘۔ خالد صاحب نے کہا یہ عجیب بات ہے لوگوں کے دل اداس ہوتے ہیں، میرا پیارا معدہ شاید اس کیس کی تاب نہیں لاسکتا۔ خالد صاحب نے اس مصرعے کے ذریعے پانی کا جگ منگوایا۔’’جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا‘‘ ٹی وی سکرین پر فیصلہ آگیا۔ فیصلہ آیا تو کھانا بہت دور چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد معدے ہی سے آواز آئی۔ یہ بڑے لوگوں کا بڑا کیس ہے۔اس کے بارے میں ہم فکر مند ہوبھی جائیں تو زیادہ سے زیادہ اپنی بھوک اور نیند اڑالیں گے۔ اس کے علاوہ بھی ہماری عدالتوں میں بے شمار کیس لگے ہوئے ہیں جن کے فیصلوں کا انتظار کرتے کرتے عام آدمی کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔