مکرمی! گذشتہ 50-60 سال سے وسائل کا رُخ حکمرانوں اور افسران بالا یعنی سول بیورو کریسی کی طرف جبکہ مسائل کا رُخ عوام کی جانب کچھ اس انداز سے موڑا گیا۔ کہ مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ان مسائل کے پیدا کرنے میںسول بیوروکریسی کا نہایت بھیانک کردار ہے۔ مختلف محکموں کی موجودگی میں نئی نئی اتھارٹیز اور کمپنیاں بنانا بلا جواز تھا۔ اس سے ملکی وسائل کے لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس پر عدالت عظمیٰ خصوصی اختیارات کے تحت اس لوٹ کھوٹ کے سلسلے کو روکنے کےلئے پر عزم ہوئی تو کمشنرز نے مختلف بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین کا ایڈیشنل چارج لینا شروع کر دیا۔ حالانکہ حسب قاعدہ ضابطہ تعلیمی اداروں کے سینئر ترین اساتذہ کرام سے منتخب کر کے چیئرمین بورڈ مقرر کیا جاتا۔ 1954ءسے تاحال ان تمام بورڈز کی کارکردگی نہایت اچھی رہی ہے۔ کمشنرز اپنی ذمہ داریاں ہی پوری کر لیں تو غنیمت ہے پورے ملک میں بدنظمی کی بنیادی وجہ ہی سول بیوروکریسی کے بے جا اختیارات ہیں جبکہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں کبھی پوری نہیں کیں۔ چیف جسٹس نے یونیورسٹیز میں تعینات شدہ سفارشی وائس چانسلرز کو برطرف کروا کر احسن قدم اٹھایا ہے ان سے استدعا ہے کہ ان بورڈز کو حسب سابق قواعدوضوابط کے مطابق سینئر اساتذہ کو ہی کام کرنے دیا جائے۔ اور اداروں کو بیوروکریسی کی دستبرد سے محفوظ رکھا جائے۔ (پروفیسر محمد مظہر عالم، زبیدہ پارک لاہور)
اداروں کو بیوروکریسی کے غلبہ سے نجات دلوائیں!
Apr 26, 2018