دوستوں کی محفل تھی، اس محفل میں ”دوستی“ کا فلسفہ زیر بحث تھا۔ دوستی.... جو دو انسانوں سے لے کر دو ملکوں کے درمیان یکساں خلوص، محبت اور گرم جوشی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ دوستی انسانی مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے، اعتماد میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور محبت کو فروغ ملتا ہے۔ اگر دوستی کے اثرات کو بطور خاص پھیلایا جائے تو معاشرے سے نفرت کے جذبات میں کمی کی جاسکتی ہے، جبکہ لوگوں کے باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کیلئے موثر ثابت ہوتی ہے۔ دراصل دوستی کے اثرات محبت اور لطیف جذبات کو جنم دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ہمارے ملکی حالات اور معاشرتی مسائل اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ ہر طرف تلخیاں ہی تلخیاں ملتی ہیں۔ لوگ زندگی کی ان تلخیوں کو عذاب سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی اچھی خبر سننے کو ملتی ہی نہیں۔ اخبارات پڑھ کر دیکھ لیں، کسی بھی ٹی وی چینل کے نیوز پروگرام سے لے کر انٹرٹینمنٹ تک، سبھی پروگراموں کو دیکھیں، ان میں بھی ہمارے معاشرتی اور ملکی مسائل کی کڑواہٹ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ایسے عالم میں اگر کالم بھی لکھا جائے تو حالات حاضرہ کی تلخی نمایاں ہی رہتی ہے۔ اس تلخی سے بچنے کیلئے بہتر ہے کہ دوستی جیسے لطیف، خوشگوار اور پاکیزہ جذبے کے حوالے سے باتیں کی جائیں:
آﺅ، حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی، رخسار کی باتیں کریں
دراصل زندگی اور حالات کی تلخیوں کے سہارے باتیں کرنا ہمارے ہاں فیشن بھی بن گیا ہے جس طرح بعض دوسرے ”فیشن“ انسانی ذہن، مزاج اور معاشرے کیلئے نقصان دہ ہوتے ہیں، اسی طرح زندگی اور حالات حاضرہ کی تلخیوں کے نام پر اپنا فلسفہ پیش کرنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے، جس پر عمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسکے مضر اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ کوئی بھی بات ہو، اس میں اعتدال لازم ہونا چاہیے۔ اصولی طور پر تو ہمارے حکمرانوں کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ ملکی مسائل کی تلخیوں میں جتنی شدت اور زیادتی ہو چکی ہے، اس میں کمی واقع ہو اور معاملات اعتدال پر رہیں، مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ مسائل کی سنگینی میں اضافے نے ہمارے دلوں کا چین اور ذہنوں کا سکون چھین لیا ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ لوگوں میں دوستی اور محبت کے فروغ کیلئے بھی کام کیا جائے۔ ایکدوسرے کے جذبات کے احترام سے لےکر اخلاقی اور قانونی حقوق تک خیال رکھا جائے، تو صورتحال بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی، ورنہ مہنگائی کے بد ترین طوفان اور بے روزگاری کے جھٹکوں سے پریشان لوگ اسی طرح مسائل کی چکی میں پستے اور ایک دوسرے سے الجھتے رہیں گے۔حالت یہ ہے کہ لوگ تو ٹریفک کے مسائل سے بھی اتنی ہی اذیت میں مبتلا ہیں، جتنے وہ مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے دوستانہ ماحول میں بات کرنے کی فضا قائم ہو، باہمی احترام کا جذبہ موجود ہو تو تلخ اور ناخوشگوار واقعات میں نمایاں کمی ہو جائے۔ دراصل ہم نے ایک دوسروں کو ”اپنا“ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ اپنائیت اور چاہت کے جذبات دلوں اور ذہنوں میں موجود تو رہتے ہیں، لیکن ہم انکی قدر و قیمت کے حوالے سے غیر محسوس انداز میں لاتعلق سے رہتے ہیں۔ اگر ہم دوستانہ ماحول میں چاہت اور اپنائیت کو اہمیت دینے پر توجہ دیں تو بہت سے مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ مثلاً جب عوام اپنی مشکلات اور پریشانیوں سے بھر پور مسائل پر حکومت سے مطالبات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو انہیں احتجاج سے روکنے کیلئے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی بجائے مظاہرین کو اپنا دوست سمجھا جائے اور ہر ممکن طریقے سے پریشان حال اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو ریلیف مہیاکرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ جسے ”اپنا“ سمجھا جائے، اسکے دکھ، درد اور مسائل کے خاتمے کیلئے دل میں تڑپ اور جذبہ موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا حکومت کی طرف سے عوام کو درپیش چھوٹے بڑے مسائل اسی مثبت اور بے ساختہ جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگر حکومت عوام کو اپنا دوست قرار دیتی ہے اور عوام بھی حکومت کو اپنا دوست ہی سمجھتے ہیں، تو دوستی کے اس ماحول میں عوام کی جانب سے حکومت سے یہ توقع بے جا نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی چیز کی دل میں طلب نہیں باقی.... میں خاک مانگوں تو مجھے حکمرانی کا پروانہ ملے۔ اسی طرح جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان دوستی کے جذبات موجزن ہوں تو یہ صورتحال بھی درپیش ہو سکتی ہے۔ مسائل کے حل نہ ہونے پر عوام کی طرف سے حکمرانوں پر کوئی الزام نہیں دیا جائے گا اور اپنے نصیب کا رونا رو کر چپ ہو جائینگے۔ یہ صورتحال صرف حکومت اور عوام کے درمیان ہی نہیں ہو سکتی ، بلکہ لوگوں کے درمیان بھی ایسا تعلق پیدا ہو سکتا ہے کہ خوشگوار حیرت ہو گی کیونکہ جب ایک دوست دوسرے دوست کو یہ کہے:
تیری گلیوں میں صدا دے کر گزر جائیںگے
تجھ کو اے دوست دعا دے کر گزر جائیںگے
ہم وفاﺅں کے جزیروں کے ہیں رہنے والے
ہم تو پیغام وفا دے کر گزر جائیں گے
ہم کبھی تجھ کو ستم کر نہ کہیں گے پیارے
اپنی قسمت کا لکھا کہہ کر گزر جائیں گے
لوگ پوچھیں گے فقیروں کا ٹھکانا کیا ہے
تیر ے قدموں کا پتہ دے کر گزر جائیں گے
اگر ہم ایک دوسرے کو اپنا دوست سمجھیں تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہم باہمی احترام کرینگے۔ دوسروں کی تکالیف اور پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے انہیں کم کرنے کا جذبہ موجود ہو گا۔ اسکے ساتھ ہی یہ اچھا کام بھی ہو گا کہ ہم ایک دوسرے کو ٹالنے اور جھوٹ بولنے سے باز رہیں گے۔ ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا: آپ نے زندگی میں پہلا جھوٹ کب بولا تھا؟ دوست نے جواب دیا: جس دن میں نے یہ اعلان کیا کہ میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں۔ یعنی جو کام ہم نہیں کرتے ہیں، اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اگر دوست کیلئے دل میں اپنائیت اور چاہت کے جذبات موجزن ہوں گے تو پھر جھوٹ نہیں بولا جا سکے گا کہ ہم جسے اپنا کہتے ہیں، جس سے اپنی ذات کو وابستہ کئے ہوئے ہیں، اس سے غلط بیانی کیوں کر ہو سکتی ہے۔یوں انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر دوستی کے جذبات سے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ صرف عزم اور ہمت کی ضرورت ہے، جو کچھ ہمارے دل میں ہے، اسے عملی شکل دینے کیلئے پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھئے ہر شخص ”حسنِ یار کی باتیں“ کرتا دکھائی دےگا اور درپیش مسائل اور پریشانیوں کا خاتمہ ہوتا ہوا بھی نظر آئےگا۔ آئیے! حسنِ یار کی باتیں کریں!
آﺅ! حسنِ یار کی باتیں کریں!
Apr 26, 2018