سیاست ، ملکی حالات اور میڈیا کے کردار پہ بے شمار کالم لکھے اور پڑھے جاتے ہیں مگر جس طرح سے یہ تمام معاملات سنبھلنے میں نہیں آرہے اور کوئی بھی مستقبل قریب اور بعید میں ہونے والے تغیرات، مسائل اور تباہ کاریوں پہ بات کرنے کے علاوہ اپنی حکمت عملی حکومت کی پالیسیز اور اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کو تبدیل کرنے پہ تیار نظر نہیں آتا۔ سیمینارز، مباحثے، مذاکرات نجانے کیا کچھ پُرزور طریقے سے جاری ہیں مگر اُن کا کوئی مثبت نتیجہ ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آیا۔ راقمہ سمجھتی ہے کہ ان تمام مسائل پہ لکھنا بے معنی سا ہو گیا ہے مگر کیا کریں، اپنے اندر کی جلتی ہوئی لَو کو کہاں لے جائیں، جو ہم صحافیوں کے اندر ایک تڑپ، لگن اور وطن سے محبت ہے وہ ہمیں جینے نہیں دیتی۔ مسلسل کرب اور اذیت ہم قلمکاروں کا روگ بن چکی ہے۔ بات الیکشن کی کریں تو بہت سے سوالیہ نشان ہمارے چودہ طبق روشن کیے رکھتے ہیں۔ معاملہ پارٹی کا نہیں ہے پارٹی والوں کا ہے جس طرح مسئلہ پاکستان نہیں پاکستانی ہیں جو ہم سب کو بڑے پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ہمیں تمام چہرے بدل دینے چاہئیں؟ اور اب چناﺅ کرنا چاہیے نئے لوگوں کا ! تو یہ نئے لوگ کون ہوں گے؟ ہم زندگی میں بے شمار لوگوں سے دوستی کی اس انتہا تک ملتے اور تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جان لیتے ہیں کون سچا کھرا اور باکردار ہے اور کون آگے جاکے اقتدار ملنے پر ڈگمگا سکتا ہے۔ پھر ہم لوگوں کو آگے کیوں نہیں کرتے؟یہاں مار دیتی ہے پالیسی، دولت، شہرت اور نسل درنسل آنے والے سیاستدان تو جناب یہی تو وقت ہے کہ ہم اپنوں میں سے کو ڈھونڈیں۔
توآیئے گلی گلی ہر علاقہ پھرتے ہیں ہم میں سے ہی عام لوگ ملیں گے جن کے ہاتھ میں قائداعظم محمدعلی جناح کی تحریک آزادی کا وہ جھنڈا ہوگا جو آج پوری دنیا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربلندی کا آئینہ ہے۔
آیئے پاتال میں پھینک آئیں اپنے مفادات اپنی ذات اپنے نفس کو اور دنیا کی ہوس کو پاکستان ایک کٹھن مرحلے میں داخل ہورہاہے اے این پی اور ن لیگ میں مفاہمت کا شور ہے کے پی کے میں نئی حلقہ بندیاں منظرعام پر آرہی ہیں، ن لیگ چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی بنا پہ صورتحال بگڑ رہی ہے بقیہ تمام جماعتیں ووٹ لینے کےلئے سرگرم عمل نظرآتی ہیں اس طرح سے سیاسی وفاداریوں کو مشکوک نظر سے دیکھاجارہاہے، کل کے چمچے آج کے کڑچھے بن چکے ہیں گلی میں مداری کا تماشا شروع ہوا چاہتاہے ہم دیکھیں گے کہ کوئی بندر نچائے گا کوئی بکرئی، کوئی ریچھ اور کوئی خود ناچتا نظرآئے گا، ہم جانتے ہیں کہ ہمارا لکھنا ہمارا نیا راستہ دکھانا بھینس کے آگے بین بجانے سے کم نہیںہے” ایک عورت کو پتہ چلاکہ جمعہ کی نماز کے بعداس کا خاوند نکاح کرنے کی تیاری کئے بیٹھا ہے تو اس نے اسے نیند کی گولیاں کھلادیں وہ آدمی جمعہ کا سویا ہفتہ کو اٹھا اور تیاری کرتے ہوئے بولاکہ میں جمعہ پہ جاتا ہوں نماز نہ نکل جائے تو بیوی نے کہا آج جمعہ نہیں ہفتہ ہے تو شوہر بولا میں اتنا کیسے سوگیا تو بیوی نے کہاکہ آئندہ دھوکہ دینے کی کوشش کی تو ساری عمر کےلئے سوجائے گا“، کاش عوام بھی اتنی ہوشیار ہوجائے کہ وہ ان سیاستدانوں کو عملاً یہ دھمکی دے سکے توپھر ہی شاید پانسہ پلٹے گا۔
اگر غور کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین کو شیطانی قوتوں کی تجربہ گاہ سمجھا جارہاہے ان میں شیطان کون نہیں ان کا فیصلہ عوام ہی کرسکتے ہیں نئے مطالبات جنم لے رہے ہیں یہ مطالبات ہیں یا سازشوں کا پنڈال کہیں پہ بے جا پابندیوں کا نزول بھی عوام کے سامنے آرہاہے،ہماری اس تمام صورتحال کو لے کربھارت ہر طرح سے جا رحیت پہ اتر آیا ہے اس کا مطلب کہ جس طرح بیوی کا نیند کی گولی کھا کر سونے سے سکون شوہر کو ملتاہے اسی طرح سے پاکستان میں اندرونی اور بیرونی انتشار بھارت کےلئے سکون دل کا باعث ہے۔الیکشن سے پہلے جو اپنی پارٹی اس لیے بدل رہے ہیں کہ شاید ان کی پارٹی ہارجائے تو ان کے گوش گزار کردوں کہ ہمارا فیصلے بدلنے میں دیر نہیں لگتی یہاں چہروں پہ جو نقاب چڑھا کر آج بھائی بھائی بن کر بغل گیر ہورہے ہیں ان کے منہ میں رام رام اور بغل میں چھریاں ہیں اس وقتی ملن اورمنہ دکھاوے کی مسکراہٹ سے قطع نظر ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آپ خود کس سے مخلص ہیں جہاں پہ قارئین پارٹی اپنے وطن سے پہلے اہم ہوجائے وہ لوگ اور پارٹی کبھی بھی سرخرو نہیں ہوتے۔
اس میں پوری پاکستان کی عوام کےلئے دعوت عام ہے، اپنے وسائل کو مت دیکھیں اپنی قابلیت اپنے کردار کو تحریک آزادی کے سچے علمبرداروں کے ساتھ موازنہ کرکے آگے بڑھیں، یہ ہم سب کا حق ہے کہ ہم اپنے گرد نگاہ ڈالیں تو بے شمار قائد ہمیں نظرآئیں گے، قائداعظم محمدعلی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی تحریک آزادی اس وقت شروع ہوگئی تھی جب پہلا انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہوا تھا، اب تو ہم بیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس وقت تو پاکستان میں ساڑھے تین سو سے زائد سیاسی پارٹیاں ہیں مگر پاکستان میں کوئی بھی تبدیلی ایسی نہیں ہے جو پاکستان کوآج کے پیدا ہونے والے بحران سے بچاسکے، زندگی کے ہر شعبے کا ایک پلان اور سسٹم ہوتاہے اسے متعلقہ حقائق کی رپورٹ اور مکمل ایک ٹیم ہوتی ہے جو کام کرتی ہے مگر یہاں توآوے کا آوے بگڑا نظرآتاہے اس سسٹم کو بدلاﺅ دینے کےلئے آج کل ایک نئی پارٹی پاکستان کے قائد،محمدعلی جناح کے اصل مقصدکو لے کر جو پارٹیوں کے تنازعات میں فوت گیا تھا ابھرتی نظرآرہی ہے، خواجہ ہارون صاحب کی فریڈم موومنٹ کی تحریک جو تحریک آزادی کی بنیادی شرائط اور پالیسیز کی آئینہ ہے اور انہی مقاصد کو جسے قائداعظم محمدعلی جناح نے بیان کیااورآگے لے کر چلے اس پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کے نام پہ سورج اس سرزمین پر طلوع ہوا، لے کر چل رہے ہیں۔آیئے اب ہم فیصلہ کریں کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے۔