بلوچستان میں جس وقت موجود وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں خاموش انقلاب لایا گیا اس وقت اس تبدیلی کے کرتا دھرتاﺅں نے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے۔ بلوچستان کی محرومیوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ بلوچستان کی زبوں حال کا ماتم کیا گیا، روزگار، تعلیم، صحت ، امن و امان، بیروزگاری، لاقانونیت، بے انصافی کا ایسا طومار باندھا گیا کہ لگتا تھا یہ ساری برائیاں سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک اور میر ثنا اللہ زہری کی وجہ سے اس صوبے میں پنپ رہی ہیں ۔ رہی میرٹ کی بات تو سچ یہ ہے کہ ان دونوں وزرائے اعلیٰ کے دور میں بھی یہی وزراءوزارتوں کے مزے لوٹ رہے تھے جو آج عبدالقدوس برنجو کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایک بار پھر وزارتوں کے مزلے لوٹ رہے ہیں باقی تمام باتوں سے ہٹ کر اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی صورتحال ہے۔ پورا صوبہ بلوچستان دہشت گردوں، علیحدگی پسند تنظیموں، مذہبی شدت پسندوں، داعش اور تحریک طالبان سے وابستہ افراد کے ہاتھوں لہو لہو ہے۔ گزشتہ پانچ برس سے اس صوبے کی وزارت داخلہ سرفراز بگٹی صاحب کے پاس ہے ان کی کارکردگی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظرآتے ہیں مگر پھر بھی وزیر داخلہ ہیں۔بے شک اس عرصہ میں بہت سی قوم پرست تحریکوں کے باغیوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالے اور پاکستان کے ساتھ اپنی مکمل وفاداری کا اعلان کیا مگر اس کے باوجود سکیورٹی فورسز پر حملے، عوامی مقامات اور سرکاری عمارتوں اور ٹرینوں پر حملوں کا تسلسل بھی جاری رہا۔ شورش زدہ علاقوں میں بگٹی ایجنسی کوھلو، مری، ڈیرہ مراد جمالی، بولان ڈھاڈر، پنجگور، تربت وغیرہ شامل ہیں یہ سندھ اور پنجاب کو بلوچستان سے ملانے والے علاقے ہیں جہاں بلوچ شدت پسند حملے کرتے ہیں ۔یہاں کی صورتحال بذات خود بلوچستان کی وزارت داخلہ کیلئے باعث شرمندگی ہے۔ سندھ اور پنجاب جب اپنے بلوچستان سے ملحقہ علاقوں میں سخت چیکنگ کرتے ہیں تو اس کا برا اثر بھی عوام پر ہی پڑتا ہے اور وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے منفی پراپیگنڈے کو بھی ہوا ملتی ہے۔ چمن، ہرنائی، ژوب، قلعہ سیف اللہ تک کے وسیع علاقے افغانستان سے منسلک ہیں وہاں سے افغان طالبان اور بھارت کے ایجنٹ بلوچستان میں داخل ہو کر اپنی کارروائیاں کرتے ہیں یہ وہ باتیں ہیں جو ہر پاکستانی خاص طور پر بلوچستان کے رہنے والے جانتے ہیں کیا وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی ان باتوں سے بے خبر ہیں۔ لیویز کی بلوچستان میں ناکوں پر کرپشن پولیس کی چیرہ دستیاں کیا کسی سے چھپی ہوئی ہیں۔ سب کو خبر ہے اگر کسی کو خبر نہیں ہے تو وہ وزارت داخلہ بلوچستان ہے جو صوبے ہیں سیاسی تبدیلی لانے کے تمام امور پر تو گہری نظر رکھتی ہیں مگر خود اپنے زیر انتظام معاملات سے بے خبر ہیں۔ بلوچستان محکمہ داخلہ میں دو نمبریاں کون نہیں جانتا۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ سرفراز بگٹی صاحب کو ایک بااثر سیاستدان کے طور پر ان کی پشت پر مضبوط ہاتھ لائے ہیں۔ تو یہ مضبوط وزیر اپنے صوبے میں ہلاکتوں کے بدترین سلسلے کو روکنے میں کیوں ناکام نظر آتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ افغانستان سے منسلک علاقوں میں کون کون سے مدارس اور سیاسی جماعتوں کے مراکز ہیں طالبان و بھارتی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، کس کس علاقے میں افغان مہاجرین مستقبل آبادیاں بنا چکے ہیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر چکے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ نہیں جانتے کہ بلوچ پسندوں قوم پرستوں کو افغانستان اور بھارت کس طرح کن کن راستوں سے سپورٹ کر رہے ہیں، مدد دے رہے ہیں۔ایران کا بارڈر کس قدر غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ طالبان قیادت ہو یا بلوچ شدت پسند قیادت یہ افغانستان اور بھارت میں بیٹھ کر ہی دہشت گردی کی وارداتوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بم دھماکے کراتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے اسکا الزام اپنے سر لیتے ہیں۔ ہماری وفاقی وزارت داخلہ میں بھی عرصہ دراز سے ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے والے ہی براجمان رہے ہیں۔ خیبر پی کے سے لے کر بلوچستان تک افغان ایران بارڈر سے جس کا جی چاہے منہ اٹھا کر پاکستان چلا آتا ہے اور یہاں دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہتا ہے اور جب جی چاہے واپس چلا جاتا ہے۔ بلوچستان کے عوام مسلکی اختلافات، علیحدگی پسندی، لسانی اختلافات کی وجہ سے سہ طرفہ جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے والے حکمرانوں کی تبدیلی کے کاروبار میں مصروف ہیں اگر وزارت داخلہ کو فرصت ملے تو وہ بیانات داغنے کی بجائے بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف بلا کسی دباﺅ کے سخت ترین کارروائی کرے ، کوئٹہ شہر کو سیف سٹی بنانے کے دعوے تو بہت ہو رہے ہیں مگر مغربی بائی پاس ، کچلاک روڈ، بروری ایئرپورٹ روڈ ہمیشہ دہشت گردوں کا نشانے پر رہتے ہیں۔ کوئی مذہبی تقریب ہو یا جلسہ جلوس پورے صوبے میں لوگوں کے دل انجانے خوف سے دھڑکنے لگتے ہیں اس وقت جب موجودہ حکمرانوں کے جانے کی گھڑی آن پہنچی ہے بلوچستان کا امن و امان ایک بار دھماکوں کی زد میں ہے۔ سکیورٹی نافذ کرنے والے ادارے پولیس اور ناکوں کو دہشت گردوں نے خاص طور پر نشانے پر لے رکھا ہے۔گزشتہ چند روز میں فرقہ وارانہ قتل اور پولیس والوں پر حملوں میں10سے زیادہ شہادتیں ہو چکی ہیں۔
وقت کا تقاضا یہی ہے کہ وزیر داخلہ جاتے جاتے ناجائز اسلحہ اور غیر ملکی مہاجرین کیخلاف بھرپور کارروائی کرکے صوبے میں امن و امان کی حالت ہی بہتر بنا جائیں تو شاید یہ صوبے پر ان کا احسان ہوگا۔ بلوچستان جیسا پرامن صوبے اس وقت جس طرح فرقہ وارانہ دہشت گردی، علیحدگی پسندی کی شورش کے ہاتھوں جل رہا ہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے ہاتھوں شہید ہونے والے ان سکیورٹی اہلکاروں کا لہو حکومت بلوچستان پر قرض ہے۔یہ وقت بیان بازی کا نہیں خود کش دھماکوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے میں ملوث عناصر کے قلع قمع کا ہے۔
بلوچستان کا امن دھماکوں کی زد میں
Apr 26, 2018