تقریبا 40 افراد پر مشتمل ایک وفد لاہور سے امن مشن پر بھارتی پنجاب ہریانہ ہماچل پردیش اور دہلی گیا تھا اس وفد میں لاہور کے ادیب، دانش ور اور صحافی شامل تھے۔ رسمی کارروائی کے بعد جب ہم امرتسر کیلئے بس میں بیٹھ گئے تب بار بار کبھی ایک کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے شخص نے پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے تقریباً دو گھنٹے اس چیکنگ میں لگ گئے۔ تنگ آکر میں نے ان سے پوچھا کہ یہ پاکستانی وفد ہے۔ اسکے تمام ممبرز کی فہرست اور جملہ تفصیلات آپکے پاس پہلے ہے موجود ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آپس میں جھگڑ رہے ہو اور بار بار سفری دستاویز چیک کرکے ہمیں پریشان کر رہے ہو اس پر ان میں سے ایک شخص بولا سر میرا تعلق پنجاب اور باقی دو حضرت کا تعلق دلی سے ہے ہم تینوں علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے اعلیٰ افسروں کو جواب دہ ہیں، اس لئے کوشش ہے کہ ہماری رپورٹوں میں تضاد نہ ہو ہر اسٹیشن پر اترتے چڑھتے یہ عمل دہریا جاتا رہا!ایک اور موقع پر میں دلی میں تھا۔ شیخ رشید جو وفاقی وزیر اطلاعات تھے انہوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی جس میں وہ کشمیر کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے۔ مقررہ وقت پر تمام پریس موجود تھا اس سے پہلے کہ شیخ رشید صاحب اپنی بات شروع کرتے ہال میں تین چار افراد جو سادہ لباس میں ملبوس تھے انہوں نے رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو گُھورا جس پر تمام میڈیا ایسے غائب ہوگیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، شیخ رشید منہ دیکھتے رہ گئے یہ ہے آزادی اظہار تحریر و تقریر کی اصل صورت بھارت میں.... گزشتہ ہفتہ میرے کالم میں پاکستان کے دشمنوں کی جس صف بندی کا ذکر کیا گیا تھا وہ اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ناکامی کے بعد پاکستان مخالفین نے شکست نہیں مانی اور مشرقی پاکستان کی طرز پر تعلیمی اداروں میں سازشوں پر عمل شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ یونیورسٹی جام شورو سے خبر آئی کہ وہاں کی انتظامہ نے فیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں صرف سندھی اور ہندی میں کام ہوگا اردو زبان میں لکھے گئے تمام بورڈ ہٹا دیئے جائیں گے۔ اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ فاٹا اور دوسرے پسماندہ علاقوں میں جعلی ویڈیو اور اساتذہ کی شکل میں تخریب کار بچوں کا ذہن ”وردی“ کے خلاف بنانے میں مصروف ہیں آزاد پختونخواہ کی تحریک اور ڈیورنڈ لائن کے گڑے مردے نکال کر ان میں جان ڈالنے کی کوششیں زور و شور سے جاری ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں افغانستان میں را اور ا این وی ایس مل کر کر رہے ہیں دو تین روز پہلے مولانا فضل الرحمن نے پشتو میں تقریر کرتے ہوئے صاف لفظوں میں ”بغاوت“ کی بات کی ہے بیرونی طاقتورں کے زر خرید غلام اور مقامی سہولت کار بیک وقت چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہے ہیں۔ تقسیم سے پہلے طاقتور ہندو کمزور مسلمان کے ہاتھوں پٹ رہا ہوتا اور کہہ رہا ہوتا تھا کہ ”ایب کے مار....“ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک بھارت کا رویہ کچھ ایسے ہے کہ جیسے وہ پاکستان کو اپنی عددی اور فوجی سازو سامان کی برتری کی وجہ سے غلام سمجھتا ہے۔ بھارت کے اندر تمام ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کیا گیا وہ ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔ پاکستان کے ایک وزیر خارجہ کا فرمانا تھا کہ ”تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے“ بھارت کی جنگ کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم بھی یہ خواہش نہ رکھیں وہ دن اور آج کا دن بھارت ہر معاملے میں چاہے وہ تجارت ہو، پانی ہو یا سیاچین کا مسئلہ ہو من مرضی کے فیصلے کر رہا ہے۔ وہ بلوچستان اور فاٹا میں جو کچھ کر رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سی پیک نے تو اسکی نیندیں ہی اڑا دی ہیں وہ تو حساب لگائے بیٹھا تھا کہ ہم آنے والے چند سالوں میں پاکستان کو بھی (خدانخواستہ) مشرقی پاکستان جیسے عبرت ناک انجام سے دو چار کر دینگے جو پاکستان دشمن طاقتیں بھارت کو ہلہ شیری دے رہی تھیں وہ بھی اب کھل کر سامنے آچکی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اندرونی طور پر اپنے سہولت کاروں کے ذریعے افراتفری پھیلا کر فوجی کارروائی کی جائے امریکہ اور مغربی ممالک اور اسرائیل پاکستان کو ایٹمی طاقت کسی طور برداشت کرنے کوتیار نہیں ہیں۔ جب وزیرستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی اور اس میں جیسے جیسے پاک فوج کو کامیابی ہوئی تخریب کاروں کی مزاحمت ناکام ہوئی، انہوں نے افغانستان فرار کا راستہ اختیار کیا اور پھر مقامی آبادی کیمپوں میں آباد ہوگئی۔ ہم نے توجہ دلائی کہ وہ نقاب پوش کدھر گئے جو ویڈیو پر نظر آتے تھے یہ مقامی نوجوان تھے جنہیں بھرتی کرکے تربیت دی گئی تھی ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ ان میں سے نوجوانوں کو علیحدہ کرکے جانچ پڑتال کی جائے تو تمام حقائق سامنے آجائینگے۔ آج ان ہی جوانوں کو دوبارہ منظم کیا جا رہا ہے اور انہیں ”پختونستان“ کے خواب دکھائے جا رہے ہیں ۔ زبردست خون خرابے اور بھاری مالی و جانی نقصان اٹھا کر پاک فوج نے ملک میں نہ صرف امن بحال کیا ہے بلکہ پاکستانی قوم کو اعتماد بھی دیا ہے کہ وہ بھارت یا کسی بھی اور طاقت کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر ممکن رعایت اور روا داری کا مظاہرہ کیا ہے اسکے بدلے میں بھارت کی طرف سے ہر موقع پر جارحانہ اور منافقانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے پاکستان کے حکمرانوں نے تجارت کو سبزی ترکاری اور پھلوں تک محدود رکھا ہوا ہے جس سے کروڑوں روپے ماہانہ کا بھارت کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ جب ہوائی راستے بند تھے تو بھارت نے منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کی بات کی اور اپنا مطلب نکلنے کے بعد مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا۔ ورلڈ بنک اور عالمی عدالت انصاف ان بین الاقوامی معاہدوں پر جو ”سندھ تاس“ معاہدہ کہلاتے ہیں بھارت کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اندر خانہ پاکستان کیخلاف سازشوں کاایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ہم اگر تخریب کاری کے اس ناسور پر توجہ مرکوز رکھتے، دینی مدرسوں کے نصاب تعلیم اور اساتذة کی تربیت پر توجہ دیتے تو یہ مدرسے ملک و قوم کیلئے کارآمد افراد پیدا کرتے ناکہ خودکش بم بار۔ کوئٹہ میں ہونےوالے خودکش حملے بتا رہے ہیں کہ دشمن پورے ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کریگا ہمارے خفیہ ادارے جو تخریب کاری روکنے کے ذمہ دار ہیں ان کا امتحان شروع ہے لیکن اگر آپ دشمن کو اس کی زبان میں جواب نہیں دینگے تو وہ ان حرکتوں سے باز نہیں آئےگا TET FOR TAT ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو مکار دشمن کو اپنی دھوتی میں رکھ سکتا ہے یعنی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ”آزاد پختونستان“ کے قیام کیلئے اور پاک فوج کو بدنام کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کی سرتوڑ کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت اور دوسرے ممالک کی سازشوں کا جواب ان ہی کی زبان میں دنیا بہت ضروری ہے وقت آچکا ہے کہ ہم عوام کے صحیح نمائندوں پر مشتمل حکومت تشکیل دیں۔ آنے والے الیکشن میں اس بات کا فیصلہ ہوگا ، قوم کو محب وطن قیادت نصیب ہوتی ہے یا الیکشن کے نام پر پھر وہی خود غرضی، منافقت نام نہاد عوام کے غم میں مبتلا لوگ آتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں ہے ۔