سری نگر+ جموں(کے پی آئی+اے این این) مقبوضہ کشمیر کے ترال قصبے میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید 4میں سے 2 نوجوانوں کو سپردخاک کر دیا گیا۔نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور بعدازاںبھارت کیخلاف مظاہرے کئے اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ قابض فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے گولیوں، پیلٹ اور آنسو گیس سمیت طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے متعدد مظاہرین کو زخمی کر دیا ۔ادھر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے پیش نظر اور 28جون سے شروع سالانہ امرناتھ یاترا کے لئے بھارتی فوج کی 80اضافی کمپنیاں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تفصیلات کیمطابق ترال کے رہائشی نوجوان اشفاق احمد اور عابد بشیر ان 4 نوجوانوں میں شامل تھے جن کو منگل کے روز بھارتی فوج نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ بھارتی فوجی ترجمان کے مطابق چاروں عسکریت پسند تھے ۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس کشمیر زون سوئم پرکاش پانی نے کہا کہ ترال معرکہ میں مارے گئے جنگجوئوں کا تعلق جیش سے ہے جن میں سے 2غیر ملکی معلوم ہورہے ہیں ۔ابتدائی طور پر اشفاق احمد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پچھلے دو سال سے سرگرم تھا۔ شہید دوسرے جنگجو عابد بشیر بٹ بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ سیکنڈ ائر کا طالب علم تھا اور 19مارچ 2018یعنی ایک ماہ چھ روز قبل اس نے گھر سے بھاگ کر ہتھیار اٹھائے تھے۔ ادھر تحصیل آری پل کے خانہ گنڈ علاقے میںکچھ نوجوانوں نے فورسز کی ایک پارٹی پر پتھرا ئوکیا ۔دریں اثناء بدھ کو دوسرے رز بھی احتجاج اور ہڑتال کا سلسلہ جاری رہا اس دوران قابض فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔مظاہرین نے ترال میں فوجی کیمپ کا گھیراؤ کر کے باقی 2نوجوانوں کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔اس دوران وادی میں کاروباری مراکز اور تجارتی ادارے بند رہے جبکہ انٹر نیٹ اور موبائل سروس بھی معطل رہی ۔فورسز نے لوگوں کو احتجاج سے روکنے کیلئے ترال میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے باہر نکل کر احتجاج کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج ’’حالات سنبھلیں تو پھر مار دو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔جیسے ہی شہادتوں کے بعد صورتحال معمول پر آتی ہے پھر سے نہتے نوجوانوں کو شہید کر دیا جا تا ہے ۔ادھر مزاحمتی خیمے نے بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور بھارتی فوج کی جارحیت کی مذمت کی ہے ۔دریں اثناء مورن پلوامہ میں پولیس و فورسز نے شبانہ تلاشی کارروائی کے دوران مکانوں کے دروازے توڑ کر9نوجوانوں کو بستروں سے گھسیٹ کربرہنہ حالت میںگرفتار کرکے تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔گائوں میں ان گرفتاریوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور مکمل ہڑتال کی گئی۔لوگوں نے بتایا کہ مارپیٹ کے علاوہ مکانوں کے کھڑکیاں اور دروازے بھی توڑ دئے گئے جس کی وجہ سے بستی میں ساری رات خوف دہشت کی فضا چھائی رہی ۔دوسری طرف وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں ایک پولیس اہلکار اپنی سروس رائفل سمیت بھاگ گیا ۔ اطلاعات کے مطابق کانسٹیبل طارق بٹ ساکن خاصی پورہ شوپیاں رات وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں پکھر پورہ پولیس پوسٹ پر دوران ڈیوٹی اپنی AK 47سمیت بھاگ نکلا۔ پولیس نے معاملے کی تحقیق شروع کردی ہے۔دریں اثناء مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر قانون وانصاف عبدالحق خان اوروزیر خزانہ، تعلیم اور محنت و روزگار سید محمد الطاف بخاری نے گزشتہ روزکابینہ کے اجلاس کے بعد پرہجوم پریس کانفرنس میں جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018 بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ آرڈیننس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 12 سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصورواروں کو موت کی سزا دی جائے گی۔13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے والے مجرم کو 20 سال یا عمر قید کی سزا دی جائے گی ۔ آرڈیننس کے مطابق بچیوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تمام واقعات کی تحقیقات خاتون پولیس عہدیدار کی سرپرستی میں ہوگی۔ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل کرنی ہوگی۔ عدالتوں کی جانب سے ٹرائل چھ ماہ کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ جبکہ اپیل کے لئے بھی چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ ایسے تمام واقعات کی ٹرائل کیمروں کی نگرانی میں ہوگی۔ ضمانت کے شرائط کو سخت کردیا گیا ہے اور کسی ملزم کو آسانی سے ضمانت نہیں ملے گی۔ آرڈیننس کے مطابق مجرموں کی جانب سے ادا کیا جانا والا جرمانہ متاثرین کو دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کی سزائے موت کا آرڈیننس منظور کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے اسے دیر سے اٹھایا گیاصحیح قدم قرار دیا ۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ زیادہ مناسب رہا ہوتا کہ اگر تابندہ غنی کیس کے سامنے آتے ہی اس طرح کا قانون بنایا اور نافذ کیا گیا ہوتا۔جبکہ حریت کانفرنس (گ) کے رہنماء سید علی گیلانی نے تعلیمی اداروں کے اردگرد ہتھیار بند فورسز کے جماو میں اضافہ کرنے اور طلبا کے اندر خوف وہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کارروائیوں کو بزدلانہ قرار دے کر اسکی مذمت کی ہے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ بھارتی اقدام طلباء کے اندر خوف پیدا کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ ظلم وتشدد کی کارروائیاںتحریک حقِ خودارادیت کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے سے نہیں روک سکتیں۔ ادھر میگھالیہ سے افسپا کی مکمل منسوخی اور اروناچل پردیش میں جزوی طور ہٹانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار کو اس فیصلے کیساتھ ہی جموں وکشمیر کے لوگوں کو بھی اس قانون سے راحت دینے کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔