اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی قوم نے مجموعی طور پر کرونا وائرس کے سامنے سرنڈر نہیں کیا، شہادتیں ہوئی ہیں اور مستقبل قریب میں کچھ مزید نقصان کا اندیشہ بھی ہے مگربالآخر بقول بابا فرید…؎
ایہہ جھوکاں تھیسن آباد ول
ہن تھی فریدا شاد ول
ایہہ نہہ نہ ویسی اک منے
وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم سنبھل رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی سطح پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے لاک ڈائون کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بعض شعبوں میں سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی انہی میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ دیہی زندگی میں زراعت کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ شہروں میں بعض شرائط کے ساتھ کچھ کاروباری صورتوں کو بحال کیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کئے گئے ہیں تاکہ دوا کے ساتھ ساتھ اپنے رب سے دعا کیلئے رابطہ بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس پس منظر میں ایک اہم پہلو پر بات کرنا ضروری ہے اور وہ ہے کرونا وائرس کے باعث زندگی کی بازی ہار جانے والوں کا سفر آخرت اور شرعی حوالے سے تجہیزوتکفین کا معاملہ۔ Covid-19نے جس تیزی کے ساتھ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اموات کا گراف جس رفتار سے بڑھا، اس سے کئی خدشات نے جنم لیا۔ روز محشر سے ملتی جلتی صورتحال پیدا ہوگئی۔ کوئی اس مرض میں مبتلا ہواتو خوف ایسا پھیلا کہ قریبی عزیز و اقارب اس کے وجود کو اپنی موت کا پروانہ سمجھنے لگے۔ مغربی دنیا میں ایسی کئی پوسٹیں وائرل ہوئیں کہ بیٹے نے اپنے باپ کو پاکستان سے بلایا اور جب وہ ہسپتال میں کرونا وائرس کے باعث جان کی بازی ہار گیا تو اس کی میت کو لینے اور تدفین کیلئے سگا بیٹا ہسپتال نہ آیا اور اس کے دوستوں نے مرحوم کی تدفین کی اور اپنے دکھ کا اظہار بھی کر دیا۔ ایک یہ تاثر عام ہوگیا کہ کرونا وائرس سے وفات پانے والے مریض کا جسدخاکی بھی بہت خطرناک ہے اور اس کو غسل دینے اور تدفین کیلئے قریب جانے والا بھی اس مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس خوف یا غلط فہمی کا سلسلہ آغاز سے جاری ہے لیکن ڈاکٹروں نے اس حوالے سے کھل کر عوام کی رہنمائی شروع کر دی ہے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے میو ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر صہیب حیدر نے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں ایسے واقعات آنے کے بعدا نہوں نے انکے دوستوںسے اس معاملے کو سینئر ڈاکٹروں کی تنظیم کے پاس اٹھایا، چنانچہ پی ایم اے (پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن) کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی سے بات کی گئی تاکہ ملکی سطح پر اس معالمے کو اجاگر کیا جائے اور وفات پانے والے لوگوں کی میتوں کی بے حرمتی اور انکے ورثاء سے ناروا سلوک کا سلسلہ روکا جاسکے۔ اس تحریک پر پی ایم اے کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں صدر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احمد نعیم اختر، ڈاکٹر ارم شہزادی، ڈاکٹر واجد علی، ڈاکٹر بشریٰ حق، ڈاکٹر سلمان کاظمی (صدر وائی ڈی اے)ڈاکٹر رانا سہیل، ڈاکٹر طلحہ شیروانی، ڈاکٹر عماد انور، ڈاکٹر عمران شاہ اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شاہد ملک نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ہسپتالوں میں فوت ہونے والے مریضوں کے بارے میں موجودہ پالیسی درست نہیں۔ اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کرونا وائرس سے فوت ہونیوالے مریضوںکی تدفین کو معاشرتی اور سائنسی بنیادوں پر اسلامی ضابطہ حیات کے تحت باعزت طریقہ سے یقینی بنایا جائے۔ بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے جب فوت ہونے والے یا والی کی میت لواحقین کے حوالے کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ رپورٹ کے انتظار کے حوالے سے انہیں خوار کیا جاتا ہے جس سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اجلاس میںتجویز پیش کی گئی کہ کسی کے فوت ہونے پر میت کو تابوت میں بند کرکے تابوت کو جراثیم کش ادویات سے ڈس انفیکٹ کرکے لواحقین اور ورثاء کے حوالے کیا جاسکتا ہے جس کو وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق تدفین کرسکتے ہیں۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈبلیو ایچ او دیگر بین الاقوامی اداروں کی سفارشات کو ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی اقدار میں جانچنے کے بعد ان پر عمل کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صہیب حیدر کا کہنا تھا کہ وفات پانے کے بعد میت نہ کھانس سکتی ہے نہ اس کے فلو کا خطرہ باقی رہتا ہے۔ کرونا وائرس کا ڈی این اے بھی چند گھنٹوں کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ اس پر مزید ادویات اور سپرے سے ڈس انفیکٹ کرلیاجائے تو میت کی بے حرمتی اور لواحقین کی ذہنی کوفت کاسلسلہ ختم کیا جاسکتا ہے اور میت کو روٹین میں فوت ہونے والے افراد کی طرح باعزت طریقہ سے دفنایا جاسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت کے متعلقہ ذمہ داران بھی اس اہم معاملے کی طرف توجہ دیں گے اور خلق خدا کی دعائیں لیں گے۔