یہ کروناکیا ہے؟ قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی کا مظہر۔ ہر ہر میدان میں ترقی کی معراج کو پہنچنے کے باوجود آج ایک نامعلوم وائرس سے جسکی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ وبائیںپہلے بھی آتی تھیں اور علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے سبب لاکھوں افراد زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ 18 ویں صدی کے اوائل میں فرانس سے شروع ہونے والی پلیگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ کو جکڑ لیا تھا اور ایک ملین لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں یہی پلیگ برصغیر میں آئی تو ہلاکتوںکا اندازہ پانچ لاکھ لگایاگیاتھا۔ 1920ء سے شروع ہونے والے سپینش فلو نے تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، اور دنیا کی کل اڑھائی ارب کی آبادی میں سے 50 کروڑ وائرس کا شکار ہوئے اور ایک کروڑ موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ مانا کہ ان زمانوںمیں علاج معالجے کی سہولتیں محدود تھیں، مگر آج تو عمر دوام کی باتیںہو رہی ہیں، تو پھر انسان اتنامجبور کیوں ۔
پہلی عالمی جنگ میںہلاک ہونے والے امریکیوں کی کل تعدادایک لاکھ سولہ ہزار سے ذرا اوپر تھی۔ جن میں سے ایکشن میںتو آدھے سے بھی کم مارے گئے اور باقی وبائی امراض کا شکار ہوئے تھے۔ جس کا صدر ووڈرو ولسن کو سخت صدمہ تھا اور انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ جنگی ہلاکتوں نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگر زیادہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر وبائی امراض سے مرے۔ مستقبل میں جنگوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض سے بچنے کا بھی سوچنا ہو گا۔
دوسری عالمی جنگ اس سے کہیں زیادہ خوفناک تھی۔ مارے جانے والے امریکیوں کی کل تعداد چار لاکھ سے اوپر تھی۔ جن میں فوجی کم اور سویلین زیادہ تھے جس پر صدر روز ویلٹ نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک طرف بے پناہ جانی نقصان اور دوسری طرف احساسِ ندامت کہ لڑائی میدان جنگ سے نکل کر ہمارے گھروں تک پھیل گئی۔ امریکی اتنے کمزور ہیںاور نہ بے وقعت کہ کیڑے مکوڑوں کی طرح مار دئیے جائیں۔ روئے زمین پر ایک ایک امریکی کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سال 2001 ء میںشروع ہونے والی افغان جنگ کتابی طور پر تو دسمبر 2014 ء میں ختم ہو چکی، مگر عملاً آج بھی جاری ہے۔ حساب لگایا جائے تو اس طویل جنگ میںہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداداڑھائی ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ مگر اس پر امریکہ میں احتجاج کا جو طوفان اٹھا، اسکی مثال نہیں۔ ہر تابوت کی آمد پر وہ واویلا ہوتا کہ دل دہل جاتے تھے۔ اس حوالے سے امریکی مائوں ویلنگ مامز Wailing MOMS کے نام سے ایک تنظیم بنائی جو ایک طرح سے افغانستان میں بیٹوں کی بلی چڑھانے والی بدنصیب مائوں کے کیتھارسس کا پلیٹ فارم ہے‘ جہاں وہ واقعی بین تو نہیں ڈالتیں، مگر ان کے دکھڑے نوحہ گری سے کم بھی نہیں ہوتے۔ اکتوبر 2012ء لاس اینجلس میں ہونے والے ایک ایسے ہی اجتماع میں راقم کو بھی شرکت کا موقع ملا تھا جہاں ایک دکھیاری ماں نے افغانستان میں مارے گئے بیٹے کا تابوت وصول کرتے ہوئے نہایت دلسوزی سے کہا تھا:
’’میں ایک ماں ہوں اور میں جانتی ہوں کہ جس ماں کی گود اجڑ جائے اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ماں کہیں کی بھی ہو، کسی کی بھی ہو‘ کیسی بھی ہو ‘ اولاد کا صدمہ اسے جیتے جی مار دیتا ہے۔ دنیا کے لئے وہ سانس لیتی ہے‘ کھاتی پیتی ہے‘ چلتی پھرتی ہے‘ من چاہے تو مسکرا بھی لیتی ہے اور شاید قہقہہ بھی لگا لے مگر اس کے اندر کا خلاء موجود رہتا ہے اور اسے مسلسل ہانٹ کرتا رہتا ہے اور یہ کیفیت ہے جس میں کسی لمحہ کمی نہیں آتی۔ کہتے ہیں جس تن لاگے سو تن جانے‘ میرے تن کو لگ چکی اور میں اس روح فرسا تجربے سے گزر چکی۔ میرا اکلوتا بیٹا ہیری بگرام ایئربیس کے قریب طالبان کے ایک حملے میں مارا جاچکا ہے۔ بعد میں محترمہ اپنی بیٹی کے ساتھ نیویارک شفٹ ہوگئی۔ 14 اور 15 اپریل کو کرونا کے ہاتھوں 3ہزار امریکیوں کے لاشے اٹھے جن میں انکی اکلوتی بیٹی این بھی شامل تھی جس کی میت پر وہ خشک آنکھوں سے واویلا کر رہی تھیں کہ آج ہیری کی جدائی کا صدمہ دوچند ہوگیا۔ اس کی وردی اور اعزازات کی ٹرے وصول کرنے والی اسکی بہادر بہن بھی چلی گئی۔ نوع انسان ان بے چہرہ جنگوں اور بے شناخت وبائوں کا ایندھن کب تک بنتی رہے گی۔ کرونا کی ہلاکت خیزیاں پوری دنیا میں جاری ہیں مگر سب سے زیادہ خراج دنیا کی واحد سپرپاور نے دیا ہے۔ تادم تحریر جس کے 50ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوچکے‘ قبرستانوں میں جگہ نہیں رہی اور دور دراز کے ویران جزیروں میں اجتماعی تدفین ہو رہی ہے۔