پچیس اپریل انیس سو چھیانوے کو پاکستان تحریکِ انصاف کے نام سے ملکی سیاست میں ایک نئی سیاست وجود میں آئی۔ عمران خان کے ساتھ ملک کے اعلیٰ دماغوں نے اس جماعت کے ساتھ ملک کے کرپٹ سیاسی کلچر کو بدلنے کے لیے بہت کام کیا، لوگ آتے جاتے رہے، بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہیں تحریک سے الگ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ایک طویل سفر میں ہر وقت مسائل کا سامنا رہتا ہے کہیں اختلاف رائے ہوتا ہے، کہیں خاندانی مسائل ہوتے ہیں کہیں کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے تو راستے جدا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے انیس سو چھیانوے سے شروع ہونے والے اس سفر میں بھی یہ سارے مراحل آئے۔ پی ٹی آئی کے لیے انیس سو چھیانوے سے دو ہزار دو کے انتخابات تک بہت مشکل وقت تھا، یہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ بہت مشکل وقت تھا۔ میں پی ٹی آئی کی اس پہلی ٹیم کا حصہ رہا جس نے گلی گلی، محلہ محلہ، شہر شہر جا کر پاکستان کے عوام کو حقیقی تبدیلی کے کیے تیار کیا، میڈیا میں لوگوں کو پاکستان تحریکِ انصاف کا پیغام پہنچایا، جماعت کو نچلی سطح پر منظم کرنے اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے دن رات محنت کی، یہ وہ دور تھا جب عوامی سطح پر پی ٹی آئی کو بہت زیادہ اہمیت نہیں ملی، 2002 کے عام انتخابات کے نتائج بھی بتاتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست میں کسی نئی اور نظریاتی جماعت کے لیے آگے بڑھنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اس مشکل وقت میں عمران خان ثابت قدم رہے ان کے عزم میں کوئی نہیں آئی، وہ جمے اور ڈٹے رہے، مسلسل کام کرتے رہے۔ یہی وہ وقت تھا آگے بڑھتے یا ہمت ہار دیتے اس مشکل وقت میں عمران خان نے ہمت ہارنے کے بجائے نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھے۔ پھر بعد کا سارا وقت پاکستان کے سامنے ہے۔ ایک تیسری اور بڑی سیاسی قوت کے طور پر پاکستان تحریک انصاف ناصرف آج سب کے سامنے ہے بلکہ عمران خان وزیراعظم بھی بن چکے ہیں۔ اس طویل سیاسی جدوجہد میں عمران خان کا مقصد صرف وزارت عظمیٰ کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ اس سیاسی جدوجہد سے ملک کو نیا طرز حکمرانی دینا چاہتے تھے، ان کا مقصد روایتی وزیراعظم بننا ہرگز نہیں تھا وہ کرپشن کے خاتمے اور ایک پاکستان کا خواب لے کر سیاست کے میدان میں آئے تھے۔ وہ ملک سے ناانصافی کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ان کی سیاسی جدوجہد کا مرکز ہی سیاسی نظام میں تبدیلی تھی۔ وہ روایتی سیاست کو ناپسند کرتے تھے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی لوٹ مار کو عوام کے سامنے رکھنا ان کی سیاسی زندگی کا مرکز رہا ہے۔ وہ جب بھی عوام سے بات کرتے ہیں یہی باتیں ان کی گفتگو کا مرکز و محور رہی ہیں۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں لیکن ان کی سیاسی گفتگو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی انیس سو چھیانوے میں بھی ان کے یہی خیالات تھے اور آج بھی وہ عوام کو یہی پیغام دیتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کو اس سفر میں کئی باصلاحیت، بے لوث اور محب وطن سیاسی کارکنوں کی خدمات حاصل رہیں، کچھ ایسے بھی تھے جنہیں سیاست سے زیادہ عمران خان میں دلچسپی تھی اور وہ عمران خان کی محبت میں کچھ بھی کر گذرنے کو تیار ہوتے تھے ایسے بہت سے لوگ بہت سال تک بیلوث تحریک کے لیے کام کرتے رہے۔ ان لوگوں میں کئی نامی گرامی لوگ بھی شامل ہیں۔ ان خدمت گاروں نے اپنا وقت اور سرمایہ پاکستان تحریک انصاف کو مقبول عام بنانے میں خرچ کیا ہے۔ کئی لوگ اس سفر میں زندگی کی بازی ہار گئے، کئی پچھلی صفوں میں دھکیلے گئے اور وہ ملک چھوڑ گئے لیکن پی ٹی آئی سے ان کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ان نظریاتی کارکنوں نے تحریک کے لیے بہت کام کیا ہے اور آج اگر پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہے اور عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تو ان لوگوں کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ میں نے انہی صفحات پر پاکستان تحریکِ انصاف کے نظریاتی کارکنوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ اس سلسلے کو پذیرائی ملی، کئی گمشدہ کارکنوں کو یاد کیا گیا، کئی ایسے نظریاتی کارکنوں کو یاد کیا گیا جو کسی وجہ سے پچھلی صفوں میں چلے گئے یا نظریاتی اختلاف کی وجہ سے نظر انداز کر دیے گئے۔
جہاں تک تعلق عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا ہے۔ ایک مقصد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں اپنا جگہ بنانا تھی وہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ عمران خان وزیراعظم بن چکے ہیں دوسرا اور بڑا مقصد ایک پاکستان کا ہے وہ منزل ابھی بہت دور ہے، ایک مقصد انصاف سر عام تھا وہ منزل بھی بہت دور ہے، ایک مقصد کمزور طبقے کی محرومی کو ختم کرنا تھا وہ منزل بھی دور ہے۔ کرپشن کا خاتمہ پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد ہے یہ منزل بہت بہت دور ہے کیونکہ تیس پینتیس برس میں حکومتوں نے جس منظم انداز میں نظام کو کرپٹ کر دیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کرپشن کا خاتمہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن عمران خان کا عزم تو ہے کہ وہ ملک کی سیاست اور طرز حکومت بدل کر حکمرانوں کو حقیقی معنوں میں عوام کا خادم بنانا چاہتے ہیں اس راستے میں رکاوٹیں بھی ہیں اور انہیں مسائل کا سامنا بھی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں اور عمران خان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں کسی کاروبار یا کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہیں جہاں سے کسی بھی ذریعے سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا جائے، وہ کسی بھی ایسی مہم کا حصہ نہیں ہیں جس کے ذریعے حکمران بلواسطہ یا بلاواسطہ مالی فوائد حاصل کرتے ہیں، حکمران خود یا اپنے قریبی رشتہ داروں کو قومی خزانے سے فائدہ پہنچاتے ہیں عمران خان ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ سیاست میں آنے اور وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے مقصد سے ابھی بہت دور ہیں لیکن ان کی صاف شفاف اور کرپشن سے پاک سیاست پر سوال اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ تیس پینتیس برس تک اقتدار میں رہنے والوں نے نظام کو جس برے انداز میں کرپٹ کیا ہے اس برائی کا خاتمہ مسلسل جدوجہد سے ممکن ہے۔ ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، سیاسی مسائل بھی ہیں، ہم معاشی مسائل سے بھی دوچار ہیں، خطے میں بدلتی ہوئی سیاست کے مسائل ہیں، کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات اور مشکلات کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد مختلف دشمن ممالک کی طرف سے ہونے والی کارروائیوں اور امن و امان کو برقرار رکھتے ہوئے ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے دیگر مسائل سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ یعنی ہمارے اندرونی مسائل بھی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی مسائل کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اہم موقع ہے۔ اچھی ٹیم کی تشکیل مسائل حل کر سکتی ہے وقت تو پھر بھی لگے گا لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ اچھی اور بہتر ٹیم مسائل کو جلد سمجھ کر بہتر حکمت عملی کے ذریعے کم وقت میں عوام کو مشکلات سے نکال دے۔