یقیں آئے نہ آ ئے واقعی اچھی نہیں لگتی
وہ شے جو سب سے اچھی تھی وہی اچھی نہیں لگتی
اندھیرا ہی اندھیرا پھیلتا جاتا ہے ہر جانب
یہی ہے روشنی تو روشنی اچھی نہیں لگتی
میں اب بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتا ہوں
تمہیں کس نے کہا کہ زندگی اچھی نہیں لگتی
سلیم کوثر کے معروف شعر کے ساتھ عرض ہے ،گزشتہ دنوں (قومی کرکٹر) شفقت رانا سے ان کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے لاہور گیا وہ ایک عجیب ملاقات تھی میرے سامنے ایک گداز دل اور سچے جذبوں کا مالک شخص آنکھوں میں آنسو لیے پوچھ رہا تھا۔ مجھے کوئی تو یقین دلائے کہ وہ چلی گئی ہے جس کے ساتھ میں نے زندگی کی 54 بہاریں، خزائیں‘ برسات‘ گرمی‘ سردی‘ اتار‘ چڑھاؤ‘ خوشی ‘ دکھ‘ غم ‘ دیکھے اور بانٹے… لوگ یقین نہیں کریں گے۔ وہ اس دوران‘ مجھے سے ایک بار بھی نہیں لڑی مجھے حسرت ہی رہی میں لاہور میں ہوتا تو اپنے ماں ‘ باپ سے ملنے کراچی بھی نہیں جاتی تھی حالانکہ پی آئی اے میں تھا ٹکٹ یا سفر مسئلہ نہیں تھا۔ جب بھی ملک سے باہر جاتا تو کراچی جاتیں واپس پر اکٹھے لوٹتے ۔ م بچے مجھ سے پوچھتے ہیں جتنا دکھ ہمیں اپنی ماں کے جانے کا ہے کیا آپ بھی اپنی ماں کے جانے پر اتنے ہی دکھی تھے میں نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا کہ تم لوگوں سے زیادہ دکھ تھا۔
شفقت رانا کہنے لگے ہم بھی لوگوں کے پاس تعزیت کے لیے جاتے اور کہتے تھے کہ بہت دکھ ہوا یقین کرو صرف الفاظ تھے احساسات نہیں تھے۔آج محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اس وقت احساسات اور دکھ کیا ہوتے ہونگے؟ انسان جب ایک عمل سے گزرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے ہم نے اپنے پیاروں کے دکھ ‘ درد بانٹے کیونکہ میں بھی اپنی زندگی کی متاع عزیز اپنے والد اور والدہ کو زندگی کی راہ میں گنوا بیٹھا ہوں ابھی تک یقین نہیں آتا فیاض خان صاحب (بابائے کرکٹ جھنگ) جیسی شفیق ہستی‘ آصف بھٹی بھائیوں جیسا دوست‘ تنویر عباس نقوی جیسا انگلی پکڑ کر راستہ دکھانے والا استاد ‘ محمود سلیم محمود جیسا مخلص بزرگ اور دوست اچانک ہی ہاتھ چھڑوا کر موڑ مڑے گئے جنہیں آپ زندگی سے چاہیں بھی تو منفی نہیں کرسکتے۔
مجھے یاد ہے جب میں نے کیپٹن عطا محمد خان کو جنرل نواز (ڈی جی رینجرز) کی شہادت کی خبر دی تو وہ سنگا پور میں کیسے دھاڑیں مار مار کر روئے تھے بچوں کی طرح بلک بلک کرروئے۔
آج بھی سیکرٹری کینٹ سردار احمد نواز سکھیرا جیسے گورے بندے کو دیکھتا ہوں وہ کیسے اپنے والد کو یاد کرکے روتے ہیں ؟کیسے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے میں اس بات کا گواہ ہوں ان کے کتنے ہی خوابوں کے محل کرچی کرچی ہوگئے کہنے لگے کہ ایک حسرت تھی کہ بڑے سردار صاحب کو جاکر کہوں کہ سر چیف سیکرٹری پنجاب حاضر ہے اب تو عہدے بے معنی ہوگئے ان سے ہمیشہ رشتوں معاشرے اور ملک کی فلاحی وترقی پر بات ہوتی ہے ہم دونوں ہی کار میں کار پر بات نہیں کرتے۔ وہ بڑے خوبصورت انسان ہیں ایک دن کہنے لگے ناصر میری بیٹی نے آج مجھے شکریے کا پیغام بھیجا ہے وہ دکھی تھے کہنے لگے یار یہ کیا بات ہے ہوئی اس کی چند ماہ پہلے شادی ہوئی وہ اتنا کیسے بدل گئی ؟کیا وہ اب والد کو کسی سہولت کے لیے شکریہ کہنے لگی ۔کیا یہ اس کا پہلے کی طرح تھا اور میرا فرض نہیں تھا۔ ایک ایسی ہی شفیق شخصیت چوہدری شہباز حسین بھی ہیں وہ رشتوں اور محبت کی دنیا میں کسی سنگ میل سے کم نہیں ہیں۔ بالکل جیسے برادرم راؤ ضمیر (سابق سی ای او لیسکو) ہیں، معین تابش جھنگ کا شعر ان کے نام کرتا ہوں
کسی کے دکھ پہ میری آنکھ کیوں نہ بھر آئے
ہیں سارے جسم میرے ساری صورتیں میری
اس طویل تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پڑوسی ملک انڈیا سے مختلف درد ناک ویڈیوز موصول ہوئی ہیں ایک بی بی سی کی رپورٹ بھی ہے جہاں پر دکھایا گیا ہے کہ کورونا آوٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے ۔ہسپتالوں میں انسانیت اپنے پیاروں اور رشتوں کے لیے بین کررہی ہیں آکسیجن ختم ہوچکی ہے ایک عورت اپنے شوہر کو 10 گھنٹے لیے ہسپتال کے اندر گھومتی رہی مگر آکسیجن نہیں ہے ۔شوہر اس کے سامنے دم توڑ جاتا ہے اس کے بین قیامت ڈھا رہے ہیں ایک بیٹی ماں کے انتقال پر دیوانی ہوگئی وہ ہسپتال والوں کو کچھ بھی کہے جارہی ہے اس طرح کے بے شمار مناظر ہیں پشاور میں چند ہفتے قبل آکسیجن ختم ہوگئی تھی ،کورونا کے مریض جاں بحق ہونے کی اطلاعات آئی تھیں جبکہ اسی وجہ سے نومولود بچوں کے جاں بحق ہونے کی بھی خبریں آئیں تھیں۔
ایسے میں کچھ سوشل میڈیا پر آوازیں آرہی ہیں کہ دو ایٹمی قوتوں کے حامل ممالک کے پاس ویکسئین اور آکسیجن نہیں ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ہاں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہیلتھ اور ریسرچ پر بہت زیادہ خرچ ہونا چاہیے یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے دونوں ملکوں کی قیادت جن کے پاس ہے وہ مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا سکتے ہیں۔پاکستان میں فوج طلب کر لی گئی ہے یہ ناتجربہ کاری کی مثال ہے شاید وزیراعظم کو نہ ادراک ہے اور نہ ہی انتظامی گر کا پتا ہے وہ پہلا قدم ہی انتہا والا اٹھاتے ہیں ۔کیا پولیس صرف تشدد‘ بے انصافی‘ ظلم اور شیلنگ کے لیے رکھی ہوئی ہے یہ ایس ایچ او کا کیس تھا ناتجربہ کار نے اسے آرمی چیف تک پہنچا دیا ہے۔ کورونا سے تو ہم لڑرہے تھے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کروایا جانامکمل حکومتی نااہلی ہے۔
بابافرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے کہا تھا کہ آسمان سے چار کتابیں اور پانچواں ’’ڈنڈا،، اترا ہے جو نہیں مانتا ہے ’’ڈنڈا‘‘ ان کے لیے ہے ایس او پی کی خلاف ورزی کیسے ہوسکتی ہے ریزروپولیس زیادہ سے زیادہ رینجرز کو میدان میں اتارا جانا چاہیے تھا۔بہرحال اس وقت انسانیت پر سخت وقت ہے اس مں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا پڑوسیوں سے اچھا سلوک ہونا چاہیے پاکستان کو بھارت سے لازمی تعاون کرنا چاہیے( شکر ہے ایسا ہی ہوا) اختلافات کو فی الوقت اٹھا رکھیں، بعد میں دیکھیں گے جبکہ ہمیں بہت ہی سنجیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ہماری صحت کی مرکزی اور صوبائی وزارتیں ‘ کرپشن کے گڑھ ہیں ہمیں فوری درمیانی اور طویل المدتی پلان مرتب کرنا ہوگا ,,ڈریپ ،،کا کچھ کرنا ہوگا۔اسلام آباد کا اکلوتا ہسپتال پمز آخر بھر کیا ایک عرصہ سے میڈیا چیخ رہا ہے کہ پمز جیسے تین سے چار ہسپتالوں کی صرف اسلام آباد کو ضرورت ہے آخر حکمران انقلابی قدم کب اٹھائیں گے؟
قارئین ۔عجیب بات ہے کہ میں پمز ہسپتال میں 2011ء کا منظر آج تک نہیں بھول پایا جب میری والدہ اسٹریچر پر تھیں ڈاکٹر نے افسردہ لہجے میں مجھے کہا مسٹر جمال سوری وہ بہت دور جا چکیں ہیں ۔میں نے والدہ کا ماتھا چوما تو اس میں حرارت موجود تھی مگر میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے ۔میں ٹوٹ رہا تھا اور اب تک ٹوٹ رہا ہوں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پیارے آپ کے ساتھ رہیں تو احتیاط کریں ماسک پہنیں‘ ہاتھ دھوئیں‘ بھاپ لیں‘ سماجی فاصلہ برقرار رکھیں‘ جو لوگ تعاون نہ کریں انہیں سختی سے سمجھائیں پھر بھی نہ سمجھیں تو قطع تعلق کرلیں
ہم نے مانگی نہیں دشمن کے بھی مرنے کی دعا
ہم وہ زندہ ہیں کہ ہر شخص کو زندہ چاہا