ملک عزیز میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے جسمانی معذوری کو کمزوری اور رکاوٹ نہیں بننے دیا۔محنت، لگن اور ہمت کے ساتھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ، منزل کی طرف گامزن رہے اور کامیابیوں کی تاریخ رقم کی۔ یہ افراد معاشرہ پر بوجھ نہیں بنے بلکہ مفید شہری بن کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ ان باہمت لوگوں میں اخترعباس بھی شامل ہے جوضلع چکوال کے ایک دور افتادہ دیہہ میں پیدا ہوا۔ہر بچے کی طرح اختر عباس کی پیدائش پر بھی یقیناً شادیانے بجے ہوں گے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب والدین کو پتا چلا ہوگا کہ اختر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے تویقیناً بڑا صدمہ بھی ہوا ہوگا۔
ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ لوگ ان سے ہمدردی اورتعاون کی بجائے ان کی جسمانی معذوری کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ جاہل تو کرتے ہی ہیں پڑھے لکھے حضرات بھی کسی طرح کم نہیں۔ افسوس ناک حقیقت ہے کہ گفتگو کے دوران ، تحریروں میں اور ٹی وی پروگراموں میں جسمانی معذوری سے مزاح پیدا کرنے کی گھٹیا کوشش کی جاتی ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جسمانی معذور افراد سے بھیک مانگنے جیسا افسوسناک دھندہ کروایا جاتا ہے۔مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔اب وہاںان افراد کو’’ڈس ایبلڈ ‘‘یعنی معذور کی بجائے’’ فزیکلی چیلنجڈ پرسنز ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے، حقوق اور عزت نفس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ بصارت سے محروم دیگر بچوں کی طرح اختر عباس کا بچپن بہت ہی تکلیف دہ رہا ہوگا۔والدین نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا کہ قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے مقامی قاری صاحب کے پاس بھیجنا شروع کردیا یوں اخترنے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرلی۔ قوت بصارت سے محروم بچے کا صرف قوت سماعت سے قرآن پاک حفظ کر لینا در حقیقت قرآن مجید ہی کا معجزہ ہے۔ مشاہدہ ہے کہ قرآن پاک کی برکت سے قوت بصارت سے محروم حفاظ معاشی مسائل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ حفظ کے بعد کسی مہربان نے’’ادارہ معین الاسلام ‘‘کی راہ دکھائی یوں حافظ اختر نے اس ادارہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔یہ اہم ترین فیصلہ زندگی کا اہم ترین موڑ ثابت ہوا۔ ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور کی ایک بستی بیربل شریف میں قائم ادارہ معین الاسلام معاشرہ کے پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچوں اور حفاظ کی زندگیاں سنواررہا ہے۔ ادارہ میںدینی اور عصری علوم کا عمدہ امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ مفت قیام و طعام کے ساتھ تعلیم بھی مفت ہے۔ یہ ادارہ ایک ہزار طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشارناظم ادارہ پرو فیسر محبوب حسین نے اپنی زندگی اور وسائل ادارہ کے لیے وقف کررکھے ہیں۔
ادارہ میں داخلہ کے بعد اختر حسین نے دو سالہ تجوید و قرآت کا کورس مکمل کیا اوربہترین قاری بن گیا۔ اس کے ساتھ پرائمری کلاسزکا امتحان بھی پاس کرلیا۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم مڈل ، میٹرک، انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پاس کرتا گیااوراب گرایجوایشن مکمل ہونے کو ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اختر عباس نے نابینا افراد کے لیے مخصوص’’بریل سسٹم ‘‘ سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ کلاس روم میں اساتذہ اور ہم جماعت طلبہ سے سبق سنتا ہے اور یادکر لیتا ہے۔ اختر عباس کی ہمت جواں ہے اور ارادے بلند ہیں۔ اس کی منزل پی ایچ ڈی کے بعد شعبہ تدریس سے منسلک ہوکر نابینا افراد کے لیے کام کرنا ہے۔اختر عباس اپنی معذوری سے نباہ کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ چکا ہے۔ دل شکنی ، معاشی ، معاشرتی اور نفسیاتی دباؤ کے باوجود مایوس نہیں ہوا۔ اپنے تمام کام کسی کی مدد کے بغیر نارمل افراد کی طرح کرتا ہے۔ ادارہ میں جب سیاہ چشمہ لگا کر ایک کیمپس سے دوسرے کیمپس میں جاتا ہے تو کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ طالب علم قوت بصارت سے محروم ہے۔ ادارہ سے گھر کا سفر تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر ہے۔کسی کی مدد کے بغیر پانچ مقامات پر سواری تبدیل کر کے گھر آتا جاتا ہے۔اخترعباس کی آنکھیں نہیں ہیں لیکن وہ آنکھ والوں کے لیے ایک عمدہ مثال ہے۔ اختر عباس نے معذوری کے باوجود وہ کچھ کر کے دکھایا ہے جو بہت سے بینا نہیں کرسکتے۔ وہ ایسے نوجوانوں سے بہت بہتر ہے جو صحیح سلامت ہونے کے باوجود تعلیم سے دور ہیں۔
اختر حسین کا پیغام ہے کہ انسان کو اللہ پاک نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ نابینا ہونے کی صورت میں ایک صلاحیت کام کرنا چھوڑ دیتی ہے لیکن باقی صلاحیتیں تو سلامت ہوتی ہیں اور بہتر کام کرتی ہیں۔اگر کسی فرد کا دماغ کام کرتا ہے اور اس کی ہمت جواں اور ارادے بلند ہیں تو کوئی جسمانی معذوری کامیابیوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
عزم و ہمت کی ایک داستان
Apr 26, 2021