آغا حشر کاشمیری کو دنیا سے رخصت ہوئے 86سال ہوچلے ہیں لیکن ان کا لکھا ہوا "رستم وسہراب " جیسا شہرہ آفاق ڈرامہ آج بھی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے ۔آغا حشر کا پورا نام آغا محمد شاہ تھا ۔وہ یکم اپریل 1879ء کو ہندوستان کے مشہور شہر بنارس میں آغا محمد غنی شاہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کے آباؤ اجداد کشمیرسے ہجرت کرکے بنارس میں آباد ہوئے تھے ۔ان کا گھرانہ مذہبی تھا چنانچہ ان کے والد اور نانا نے آغا حشر کی تربیت خالصتا اسلامی ماحول میں کی ۔آغا حشر کو ناظرہ قرآن پاک کے علاوہ سولہ سپارے بھی حفظ تھے ۔ تعلیم بنارس کے مقامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی ۔آغا حشر کاشمیری کی زندگی کا زیادہ عرصہ لکھنو ، بمبئی اور لاہور میں گزرا۔ ان کے قریبی دوستوں میں مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی ،مولانا ظفرعلی خاں ، مولانا عبدالمجید سالک ،مولانا تاجورنجیب آبادی اور مولانا چراغ حسن حسرت شامل تھے ۔آغا حشر ایک بلند پایہ ڈرامہ نویس ہی نہ تھے بلکہ فلاسفر ،ایک شاعر ،ایک بہترین مصور اورممتا ز ادیب بھی تھے ۔بمبئی میں قیام کے دوران وہ عیسائیوں اور آریہ سماج کے پیروکاروں سے مناظرے اور مباحثے کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان معاشرتی ،تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے زوال پذیر تھے ۔اس مشکل وقت میں آغاحشر ، مولانا ابوالکلام آزاد، نظیرحسین سخااور خواجہ حسن نظامی نے مل کر ایک انجمن بنائی ۔جس کا نام "انجمن نصرت اسلام"رکھا۔یہی وہ مضبوط محاذ تھا جس کے سامنے بڑے بڑے پادری اور مبلغ نہ ٹھہر سکے ۔اس انجمن نے "البلاغ " کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا ۔ابوالکلام آزاد اور آغا حشر اس رسالے کو مرتب کرتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری بہت سی ایسی صلاحیتوں کے مالک تھے جو عام شاعروں ،خطیبوں اور ڈرامہ نویسوں کے حصے میں نہیں آئیں۔ یہ ان کا خطابت ،تقریر ، مناظرہ اور بحث و مباحثہ کا فن تھا ۔جس محفل میںجاتے اپنے علم و فضل ،زوربیان ، حاضر جوابی اور برجستہ گوئی سے اہل محفل پر چھا جاتے۔انداز خطابت کا یہ عالم تھا کہ جس محفل میں تقریر کرتے سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔زوربیان اور اثر آفرینی کی بدولت نہ صرف ڈرامے کے میدان میں اپنا سکہ منوایا بلکہ دنیا میں ایک بڑے خطیب ،مقرر اورمناظر کی حیثیت سے بھی تسلیم کیے گئے۔لاہور میں قیام کے دوران انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں نظمیں پڑھتے رہے ۔آغا حشر کی زندگی کا ابتدائی حصہ ڈرامہ نویسی میں ہی بسر ہوا۔یہی ان کا محبوب مشغلہ رہا اور یہی پیشہ انہوں نے تمام عمر اختیار کیے رکھا۔انہوں نے پہلا ڈرامہ "آفتاب محبت"لکھا ۔یہ ڈرامہ بنارس کے ایک معروف جریدے میں1897ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد انہوں نے "مرید شک"ڈرامہ لکھا جس کا پلاٹ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے winters Taleسے ماخوذتھا۔یہ ڈرامہ 1899ء میں سٹیج کیا گیا ۔اس دوران آپ سٹیج ڈرامہ سے متعلقہ کئی کمپنیوں کی جانب سے ڈرامے لکھتے رہے جو آپ کی مقبولیت کا باعث بنے۔ مرید شک ،مار آستین ،اسیرحرص ، میٹھی چھری عرف دورنگی دنیا ، ٹھنڈی آگ ،شہید ناز عرف اچھوتا دامن ،سفید خون ،صید ہوس ،خواب ہستی عرف داؤ پیچ ،خوبصورت بلا،سلورکنگ عرف نیک پروین ،پہلا پیار،بن دیوی،یہودی کی لڑکی ،بلوامنگل عرف سورداس ،شیرکی گرج عرف نعرہ تکبیر،مدھر مرلی ،بھگت گنگا،عورت کا پیار،ہندوستان،ترکی حور،آنکھ کا نشہ،سیتابن باس،بھیشم پرتگیا،دھرمی بالک،عرف غریب کی دنیا،بھارتی بالک عرف سماج کا شکار، دل کی پیاس اور رستم و سہراب کے ڈراموں کے خالق بھی آغا حشر کاشمیری ہی تھے ۔1912ء میں آپ لاہور چلے آئے۔ان دنوں لاہور علم و ادب کا گہوارہ بن چکا تھا ۔اردو کی ترقی و ترویج کے لیے مختلف انجمنیں سرگرم عمل تھیں جن میں انجمن حمایت اسلام ،بزم اردو اور بزم سخن خاص طور پر قابل ذکر تھیں ۔آغا حشر بھی انہی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔1914ء میں بیوی کے انتقال کے بعدآپ ایک بار پھر کلکتہ چلے گئے۔بعدازاں آپ نے فلموں کی کہانیاں بھی لکھناشروع کردیں ۔عمرکے آخری حصے میں آپ ایک بار پھر لاہور تشریف لے آئے اور یہاں 28اپریل 1935ء کو آپ کا انتقال ہوا ۔آپ قبرستان میانی صاحب میں دفن ہیں ۔