کراچی (کامرس رپورٹر)پاکستان کی ڈائون اسٹریم آئل انڈسٹری کی بنیادی نمائندہ تنظیم ، آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کے مطابق ، ریفائنریز کی جانب سے مقامی طور پر فیول پراڈکٹس تیار کرنے کے حوالے سے کی جانے والی معاونت، اور بین الاقوامی مارکیٹ میں جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے باعث فیول پراڈکٹس کی محدود دستیابی کے باوجود آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی جانب سے درآمدات کی منصوبہ سازی اور حجم کو بروقت پورا کرنے کے عمل کے باعث، ملک میں موٹر اسپرٹ (ایم ایس) اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) وافر مقدار میں موجود ہے۔ چونکہ کٹائی کے موسم کی وجہ سے ایچ ایس ڈی کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، لہٰذا او سی اے سی بمعہ پیٹرولیم انڈسٹری، اوگرا اور وزارت توانائی ( پٹرولیم ڈویژن) کی مشاورت سے بڑھتی ہوئی طلب کو مؤثرطریقے سے منظم رکھنے کے لیے فعال انداز میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ملک میں فیول کی بلا تعطل فراہمی کی تفصیلات کے حوالے سے بات کی جائے تو موزوں ایچ ایس ڈی حجم لے جانے والے کارگوز پہلے ہی پورٹ پر موجود ہیں اور انہیں باضابطہ طور پر ان کی باری آنے پر ڈسچارج کردیا جائے گا، جبکہ وہ تمام کارگوز ،جن کے متعلق منصوبہ سازی کی گئی ہے ، ان کی آمد بھی جلد متوقع ہے ۔اسی طرح موٹر گیسولین ذخائر بھی ملک کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں ، جبکہ ان منصوبہ ساز درآمدات کے ذریعے اضافی حجم بھی آرہا ہے ۔اس حوالے سے او سی اے سی کے سیکریٹری جنرل ، ڈاکٹر ناظر عباس زیدی نے کہا کہ ،"پاکستان میں توانائی کی قلت کے باعث فیول کی فراہمی میں ہونے والی کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے ۔مستقل بنیادوں پر درآمدات کے بڑھتے ہوئے حجم اور بنیادی انفرااسٹرکچر میں موجودکاوٹوں کے نتیجے میں پورٹس پر بحری جہازوں کی بھیڑ لگ جانے کے باعث مسائل درپیش آتے ہیں۔ تاہم او سی اے سی فیول کی فراہمی کو منظم اورسہل انداز میں جاری رکھنے کے لیے اوگرا کے ساتھ مل کر اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے ان مسائل سے مؤثرطریقے سے نبر دآزما ہونے کے لیے مسلسل کوشاں ہے ۔لہٰذا مبہم انداز میں پھیلائی جانے والی قیاس آرائیوں اور افواہوں کی وجہ سے درپیش غیر یقینی صورتحال اور غیرمعمولی اندا ز میں فیول کی خریداری سے خود کو بچانا انتہائی ضروری ہے۔"او سی اے سی اس بات کا اعائدہ کرتا ہے کہ پورٹ پر موجود کارگوز اور جلد ہی آنے والے دیگر بحری جہازپر موجود ایندھن کے علاوہ ملک میںفیو ل سپلائیز کی وافر مقدار موجود ہے ، لہٰذا شہریوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضرورت کے مطابق فیول کی خریداری کریں اور ان مبہم اطلاعات یا قیاس آرائیوں کے نتیجے میں وافر مقدار میں فیول خریدنے سے گریز کریں ۔