عالمی ادارے قیامِ امن کے لیے مسئلۂ کشمیر کو سنجیدہ لیں

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کررہے ہیں جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف مقبوضہ وادی بلکہ آزاد کشمیر میں بھی یومِ سیاہ منایا ہے۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان کی ہدایت پر تمام ڈویژنل و ضلعی ہیڈکوارٹرز پر احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔ مظفرآباد میں نکالی گئی احتجاجی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے آزادکشمیر کے وزیر خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ آج ہم آزادی کے بیس کیمپ دارالحکومت مظفرآباد میں احتجاج کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو باور کروانا چاہتے ہیں کہ نریندر مودی 5 اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدام غیرقانونی قبضے والے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پہلی بار کشمیر میں اپنے ناپاک قدم رکھ رہا ہے۔ یومِ سیاہ کے موقع پر ہم بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکا او ربرطانیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جیسے روس یوکرائن جنگ میں امریکا اور برطانیہ نے روس کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے ایسے ہی بھارت کے ساتھ بھی تعلقات ختم کریں۔ اس سلسلے میں لندن میں واقع برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر بھی ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری نریندر مودی کے دورۂ کشمیر کو مسترد کرتے ہیں۔
مسئلۂ کشمیر اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود دو ایسے معاملات میں سے ایک ہے جو گزشتہ پون صدی سے حل طلب ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دوسرا مسئلہ بھی مسلم آبادی کے علاقے سے ہی جڑا ہوا ہے جسے دنیا فلسطین کے نام جانتی ہے۔ جموں و کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازعہ ہے اور اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اس امر کی گواہ ہیں کہ بھارت نے اس جنت نظیر وادی پر اپنے ناپاک پنجے ناجائز گاڑھ رکھے ہیں۔ ان قراردادوں میں بھارت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لیکن ان قراردادوں اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے مطالبات کے باوجود بھارت اس سلسلے میں مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری محض زبانی بیانات اور مذمتوں سے کام لیتے ہیں اور ان کی جانب سے کبھی بھی مسئلۂ کشمیر سے متعلق بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا۔
عالمی برادری کے انھی رویوں سے شہ پا کر بھارت نے 5 اگست 2019ء کو اپنے آئین کی شق 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کر کے یکطرفہ طور پر اپنا حصہ قرار دیدیا تھا۔ پاکستان نے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ہر بین الاقوامی فورم پر اس مسئلے کو اٹھانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس واقعے کی بنیاد پر ہی پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت پر پابندی لگادی جو تاحال برقرار ہے۔ پاکستان کا اس سلسلے میں موقف بہت واضح ہے کہ مسئلۂ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ اس موقف کی حمایت دفتر خارجہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں کرتارپور راہداری کو کاروباری ملاقاتوں کے لیے استعمال کرنے کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یہ بدنیتی پر مبنی بھارتی پراپیگنڈا ہے جسے ایک مہم کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے۔ دفتر خارجہ نے اتوار کو جاری اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ کرتارپور راہداری سکھ برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، اس کو کاروباری ملاقاتوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کشمیریوں نے ہر موقع پر بھارت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ بھارت کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ جون 2010ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے مقبوضہ وادی کا دورہ کیا تھا اس موقع پر بھی کشمیریوں نے مکمل ہڑتال کر کے بھارت کو واضح طور پر یہ پیغام دیا تھاکہ وہ اس کو ایک غاصب سمجھتے ہیں جس نے جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ اب بارہ برس بعد نریندر مودی کے دورۂ کشمیر کے موقع پر بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیری اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے اور وہ آزادی کے حصول تک اپنے موقف پر اسی طرح ڈٹے رہیں گے۔ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو اس موضوع پر ان واقعات پر غور کرنے اور ان سے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی مجرمانہ خاموشی سے کشمیریوں کا جذبۂ آزادی ماند نہیں پڑے گا۔
مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز ریاستی دہشت گردی کی بدترین داستان رقم کررہی ہیں لیکن کشمیری عوام کے حوصلے بلند ہیں اور وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ کشمیری خود ارادیت کے اپنے بنیادی حق کی جنگ لڑرہے ہیں جس سے انھیں کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ عالمی برادری کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ہر موقع پر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور کشمیر کی آزادی تک بھارت کے مذموم عزائم کے راستے میں ایک سیسہ پلائی دیوار بنا رہے گا۔ اس خطے میں قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ عالمی ادارے مسئلۂ کشمیر کو سنجیدگی سے لیں اور اس سلسلے میں محض زبانی جمع خرچ نہ کریں کیونکہ اس مسئلے پر ایٹمی قوت کے حامل دو ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن