پاکستان کے داخلی حالات کی دگر گونی اور انتشار و خلفشار کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے کثیف سایوں کے باوجود بھارتی انتہا پسند راشٹریہ سیوک سنگھی مودی سرکار کی جماعت اور کابینہ کے اراکین پاکستان پر نام نہاد دہشت گردی کے الزامات لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ گزشتہ دنوں راج ناتھ سنگھ نے تو باقاعدہ یہ دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے بھارت میں دہشت گردی اور در اندازی بند نہ کی تو بھارتی افواج پاکستانی سرحد پار کر سکتی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آئے روز اس قسم کی گیدڑ بھبھکیاں دینا بھارتی حکمرانوں کا مرغوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ وہ امریکی سرپرستی کی وجہ سے بھارت کو جنوب مشرقی ایشیا کا منی امریکا تصور کرتے ہیں کہ وہ جس ملک پر چاہے پیشگی حملے کا جواز بنا کر اس کی زمینی، فضائی اور بحری حدود کو پامال کر سکتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے جھوٹے الزامات اور منفی باطنی خواہشات کے آئینہ دار جارحانہ بیانات ہندو انتہا پسند اکثریت کو حکومتی ہمنوا بنانے کے لیے ایک کارآمد نسخہ ثابت ہوئے ہیں۔ اقلیت دشمن پالیسیوں کے باوجود ہندوستان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا تسلط اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
باخبر حلقے جانتے ہیں کہ آج سے ٹھیک 5 سال قبل اپریل 2017ء میں بھی مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور لائق نفریں پراپیگنڈے کی توپوں کا رخ اس کی جانب کر رکھا تھا اور ڈس انفارمیشن کی خوفناک بمبنگ اور میزائلنگ جاری تھی۔ پاکستان الزامات کی زد پر تھا۔ان دنوں دہائی دی جا رہی تھی کہ ’’3جنوری2016ء کو بھارتی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے علاقے میں دہشت گردوں نے ائرفورس بیس پر حملہ کردیا، جھڑپ کے نتیجہ میں 3 فوجی اور 5 حملہ آور مارے گئے، حملہ آور پولیس وین چھین کر ائیربیس میں داخل ہوئے،فوجی یونیفارم پہنے ہوئے حملہ آور نان آپریشنل ایریا میں داخل ہوگئے جہاں طیارے اور ہیلی کاپٹر پارک کئے جاتے ہیں،حملہ آوروں نے دستی بموں اور خود کار ہتھیاروں سے تباہی مچادی‘‘۔ واضح رہے کہ جب پٹھان کوٹ ائربیس پر حملہ ہوا تو 29 جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وہاںموجود تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر کا بیان حیران کن تھا۔ اس بیان کی رو سے ائیر بیس پرمسلح حملہ آور اتنے بے وقوف تھے کہ انہوں نے لڑاکا فوجی طیاروں اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں کو کوئی نقصان پہنچانے کے بجائے صرف 3 فوجیوں کو نشانہ بنانے پر اکتفا کیا حالانکہ اس وقت اسی پولیس افسر کے مطابق 29 جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وہاں موجود تھے۔ اس دور کے بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور تاحال وزیراعظم نریندر مودی نے پٹھان کوٹ ائیربیس پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کرلی تھی۔ حملے کے فوری بعد حسب روایت بھارتی میڈیا اور وزراء نے ایک بار پھر بلا تحقیق پاکستان پر الزامات لگانا شروع کردیے جبکہ بھارتی میڈیاکا ایک حصہ حملے کو مشکوک قرار دے رہا تھا۔یہ میڈیا چیخ چیخ کرپوچھ رہا تھا کہ ’سرحد کے قریب ہی ائربیس پر حملہ کیوں ہوا؟ بغیر تحقیقات کئے بھارت نے پاکستان کی جانب کیوں انگلی اٹھا دی؟ نیز یہ کہ ’مودی کے دورۂ پاکستان کے بعد ہی ائربیس پر حملہ ہونا تھا‘۔ یہ امر بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا تھا کہ حملہ آورگورداس پور سے ایک روز قبل اغوا ہونے والی ایس پی کی اس گاڑی میں سوار تھے جو چھینی گئی تھی۔24گھنٹے تک اس گاڑی کا کھوج لگانے میں بھارتی حساس ادارے کیوں کامیاب نہیں ہوئے… یہ کہ گورداس پور کوئی ممبئی ایسا بڑا اور گنجان آباد شہر نہیں تھا کہ اس گاڑی کا سراغ نہ لگایا جاسکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق یہ حملہ خود ساختہ تھا۔آثار وقرائن بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ شہریوں نے انکشاف کیا تھا کہ’ ائربیس کے قریب سے ایک روز قبل حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی گئی تھیں۔ شہریوں کے انکشاف کے بعد ائربیس پر آج ہونے والا حملہ مشکوک ہوگیا۔ ابھی سرکاری سطح پر ائربیس پر حملے کی تحقیقات شروع نہیں ہوئی تھیں کہ بد لگام اور منہ زور بھارتی میڈیا پاکستان پر الزامات کی اندھا دھند چاند ماری کر رہا تھا جبکہ اسی روزبھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی طرف سے واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا گیا کہ ’’ کوئی ملک کشمیر میں دراندازی نہیں کر رہا‘‘۔صاف ظاہر ہے کہ ’’کوئی ملک‘‘ سے اس کی مراد پاکستان تھا۔
3 روز قبل پاکستان کی سرحدیں عبور کرنے کی دھمکی دینے والا راج ناتھ سنگھ ان دنوں بھی بحیثیت بھارتی وزیر داخلہ دھمکی دے رہا تھا کہ ’’ پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر پٹھان کوٹ حملے کا منہ توڑ اور بھرپور جواب دیں گے‘‘۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ بھارت سرکار نے پٹھان کوٹ کے واقعہ کو جواز بنا کر دو طرفہ جامع مذاکرات کے مجوزہ عمل کے راستے کو اسی طرح مسدود کر دیا تھا جس طرح اس نے دسمبر 2008ء میں ممبئی حملوں کا ناٹک رچا کر جامع مذاکرات کی بساط لپیٹ دی تھی۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔جن میں بھارتی پنجاب کے سکھوں کی مضبوط اور ناقابل تسخیر تحریک قیام خالصتان کی تحریک ہے۔ اس تحریک کو 80 کی دہائی میں آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے بظاہر دبا دیا گیا تھا لیکن راکھ میں موجود اس کی چنگاریاں آج بھی مودی سرکار کے انتہا پسند ہندتوا کے فلسفے کے ردعمل میں شعلوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ 1950ء میں جب بھارتی آئین تیار کیا گیا تو سکھ اقلیت کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ تحریک آزادی کے دوران سکھوں نے جو قربانیاں دیں، اس کا اعتراف موہن داس کرم چند گاندھی، پنڈت موتی لال نہرو اور پنڈت جواہر لال نہرو بھی شاندار الفاظ میں کرتے رہے۔ سیکولر بھارت کو مودی سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی ایک خالص ہندو ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے اور مختلف ریاستوں میں جاری آزادی کی تحریکوں کو تشدد اور کالے قوانین کے ذریعے کچلنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب ( خالصتان ) تامل ناڈو، آسام، ناگالینڈ،جھاڑ کھنڈ، تری پورہ، منی پور، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکام عالمی طاقتوں کی پشتی بانی، کالے قوانین اور قوت کے بے محابا استعمال کی وجہ سے علیحدگی کی ان تحریکوں کو کب تک دبائے رکھنے میں کامیاب ہوںگے۔ بھارت میں اقلیتوں سے جو ناروا سلوک کیا جا رہا۔ اس کا ردعمل آنا ایک فطری امر ہے۔ آخر بھارت سرکار کب تک خالصتان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے خون سے ہولی کھیلتی رہے گی۔