میاں شہباز شریف کو درپیش چیلنجز

انتھک، محنتی اور ترقی کا جنون رکھنے والے میاں شہباز شریف خادم پنجاب سے خادم پاکستان بن چکے ہیں اور پاکستانی عوام اِن سے انکی سابقہ کارکردگی کی وجہ سے بہت سی توقعات بھی رکھتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان کی طرح میاں شہباز شریف کو بھی قرضوں میں جکڑی ہوئی اور تباہ حال معیشت ملی ہے۔ ملک کی آمدنی میں اضافہ کرنیوالے بڑے شعبے مثلاً زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری سب بحران کا شکار ہیں توانائی اور پٹرولیم کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے جہاں عوام کے مسائل میں اضافہ ہو رہاہے وہاں ملک لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ آخری گیند تک کھیلنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان بجٹ خسارہ 4600 ارب روپے بتاتے رہے جبکہ حقیقتاً یہ اس سے کہیں زیادہ 5400 ارب روپے تھا اور اگر اس میں سرکاری کمپنیوں کا 800 ارب روپے کا خسارہ بھی شامل کر لیا جائے تو کل بجٹ خسارہ 6200 ارب روپے بن جاتا ہے اسی طرح کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی اعلان کردہ 20 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ 45 ارب ڈالر نکلا۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے توازنِ تجارت بُری طرح بگڑ چکا ہے توانائی اور پٹرولیم کے بارے میں جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ رک چکا ہے۔ اس وقت ملک میں 25 پاور پلانٹس بند ہونے کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگا واٹ سے بھی بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں اوسطاً 6 سے 8 گھنٹے اور د یہی علاقوں میں 10 سے 12 گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گیس کی کمی کی وجہ سے جہاں عوام متاثر ہو رہے ہیں وہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو 50 فیصد کم گیس فراہم ہو رہی ہے جس سے برآمدی آرڈر بھی پورے نہیں ہو رہے۔ عمران خان کی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے 30 جون تک پٹرولیم کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فراخدلانہ اعلان کیا تھا لیکن اس ریلیف کیلئے مالی وسائل کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ چنانچہ نئی حکومت کے مالیاتی اور اقتصادی ماہرین سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ معیشت کی بحالی کیلئے جامع حکمت عملی اور مؤثر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر چند دن پہلے وزیراعظم نے دیامیر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی منصوبے کا جائزہ لیا اور متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ اس ڈیم کو 2029ء کی بجائے 2026 ء تک مکمل کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ یقیناً بطور وزیر اعظم پاکستان عوام کو میاں شہباز شریف سے یہی توقع ہے کہ وہ انکے مسائل کو حل کرنے، انہیں مہنگائی ، بے روزگاری ، توانائی کے بحران سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کرینگے۔ اب جبکہ وفاقی کابینہ کی تشکیل ہو چکی ہے اور وزیر اعظم (خادم پاکستان) کی قیادت میں سب وزراء ملکی ترقی اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے میدان میں آ چکے ہیں۔ حکومت کی مالیاتی اور اقتصادی ماہرین کی ٹیم ملک کی مجموعی پیداوار کو بڑھانے، سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی صورتحال کو بہتر بنانے اور عوامی فلاح و بہبود کیلئے منصوبہ سازی میں مصروف ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت کی گڈگورننس کی وجہ سے ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہو گی۔ ملک کے اندرونی حالات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ دنیا کے ہر ملک خاص کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر اور مضبوط بنانا ہو گا اور باہمی تجارت کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ متوازن اور آزاد خارجہ پالیسی کیلئے نہایت سرگرمی سے کام کرنا ہو گا۔ امید ہے کہ اس نئی حکومت کے آنے سے گوادر سمیت سی پیک کے دیگر منصوبوں پر تیزی سے عمل ہو گا۔ ایک اقتصادی جائزے کیمطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رحجان پایا جاتا ہے اگرچہ دوسری طرف سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اس لیے وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں سے خود رابطہ کریں۔ بیرون ممالک قائم پاکستانی سفارت خانوں کو متحرک کریں اور اِن وطن دوست پاکستانیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ موجودہ حکومت مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے لہٰذا ان کے درمیان مضبوط اتحاد اور باہمی احترام اس حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کر سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اگرچہ عمران خان کی قیادت میں حکومت کیخلاف بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے اور فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت اپوزیشن کا مقابلہ اپنی بہترین کارکردگی اور عوامی مسائل کو حل کر کے باآسانی کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کو ملک کے تمام صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے، ملکی وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنانے، صوبوں میں ترقی کی رفتار تیز کرنے اور وہاں سے پسماندگی کو دور کرنے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ مزید یہ کہ بلوچستان کے وسائل کو بلوچستان پر خرچ کرنے، سی پیک اور گوادر سے اس صوبے کو خوشحال بنانے کیلئے صدقِ دل سے کام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ NFC ایوارڈ اور پانی کی منصفانہ تقسیم بھی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو متحد رکھنا اور انکے سیاسی مفادات کا خیال رکھنا میاں شہباز شریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج بھی ہے اور امتحان بھی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ جمہوریت کی مضبوطی، ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے میاں شہباز شریف اپنی انتھک محنت، جامع حکمت عملی، گڈ گورننس اور تدبر کے ساتھ کام کر کے صحیح معنوں میں ’’خادمِ پاکستان‘‘ کا اعزاز حاصل کر سکیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن