نیرو بنسری بجا رہا تھا

سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل میہڑ میں فرید آباد تھانے کی حدود میں واقع گاؤں فیض محمد دریانی چانڈیو میں چند روز قبل آتشزدگی سے تین بھائیوں اور ان کی ایک بہن سمیت نو افراد جھلس کر ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔آگ کئی گھنٹوں تک بجھائی نہیں جاسکی تھی، جس کے نتیجے میں گاؤں کے 100 سے زائد مکان مکمل طور جل گئے جبکہ بھینسوں، گائے اور بکریوں سمیت 150 سے زائد مویشی، گاؤں میں رکھی سینکڑوں من گندم اور ٹریکٹر بھی جل گئے تھے۔شدید زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کیلئے اسپتال منتقل کرنے کیلئے ایمبولینسز تک موجود نہیں تھیں اس لیے انہیں پولیس موبائلز میں دادو اور بعض کو حیدرآباد منتقل کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ آتشزدگی کے واقعے پر صوبائی حکومت نے امدادی کاموں میں تاخیر کی۔اب انکی حکومت بعد از خرابیٔ بسیار امداد کیلئے سرگرم ہوگئی ہے۔یہ امداد بھی جانے اصل حقداروں تک پہنچتی ہے درمیان میں اُچک لی جاتی ہے۔دادو میں جو قیامت ٹوٹی اور دل دوز واقعہ پیش آیا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے نہ ہی یہ سندھ حکومت کی پہلی بار نالائقی و نااہلی اور سفاکانہ ذہنیت سامنے آئی ہے۔ تھر میں بھوک اور پیاس سے کتنے بچے ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ناقص انتظامات اور ادویات کی نایابی کے باعث کتنے لوگ خصوصی طور پر بچے موت کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ اس صوبے میں ان لوگوں کی چودہ سال سے حکومت ہے جن کے گھوڑوں اور کتوں کی خوراک بھی امپورٹڈ ہے۔ اب تو خیر پاکستان میں امپورٹڈ کی ایسی مانگ ہو رہی ہے کہ حکومت بھی امپورٹڈ ہے۔ والیانِ سندھ کے گھوڑوں کتوں کی خوراکیں معیار کے اعلیٰ درجے کی ہوتی ہیں۔ اسی صوبے میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین ہی دستیاب نہیں ہے۔ ضلع دادو جہاں قیامت برپا ہوئی مراد علی شاہ کا آبائی علاقہ ہے۔ اگر امدادی کارروائی فوری طور پر شروع ہو جاتی تو کئی جانیں بچ سکتی تھیں۔ ایمبولینس ندارد، فائر بریگیڈ کی گاڑی خراب ۔ ادھر وزیراعلیٰ کا پروٹوکول دیکھیں بلاول اور آصف علی زرداری جن کے پاس ابھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے انکے قافلے دیکھ کر لگتا ہے کسی ملک کا مہاراجہ کوئی ریاست فتح کرکے آیا ہے۔ ممکنہ حادثے کی صورت میں ایمبولینس تمام تر ادویات اورضروریات کے ساتھ قافلے میں شامل ہوتی ہے۔ ان لوگوں کیلئے وسائل کی بہتات اور عام لوگوں کیلئے جو ان کو کندھوں پر بٹھا کر اقتدار کے ایوان میں بٹھا دیتے ہیں ان کی زندگی اجیرن رہی ہے۔ وہ مسائل کا شکار رہے ہیں۔
دادو میں لوگ جل رہے تھے۔ بعد میں بھی انکے پُرسے کیلئے کوئی نہیں آیا۔ زرداری صاحب اور انکے فرزند ارجمند حکومت سازی میں مصروف تھے۔ کابینہ میں کریمنلز کو شامل کرا کے جشن منا رہے تھے۔ بلاول لندن نوازشریف کو ملنے اور صدارت کی خیرات کیلئے چلے گئے۔ زرداری صاحب پھر صدر بنیں گے اور مقدمات سے استثنیٰ ، جشن در جشن۔ روم جل رہا تھا نیرو بنسری بجا رہا تھا۔ دادو جل رہا تھا ،بچے جھلس رہے تھے، نیرو جشن منا رہا تھا۔ کابینہ میں اس شخص کو وہی وزارت دلوائی گئی جس کے جرائم میں وہ مطلوب تھا۔ ن لیگ اور پی پی پی نے سوچ سمجھ کر بندربانٹ کی۔ وزیرداخلہ پر جو کیسز ہیں ان کو دیکھیں اور وزارت کو دیکھیں۔ انسداد منشات کی وزارت اسے دی گئی جس پر منشیات کے کیس ہیں۔ سندھ میں سیلاب آئے تو وڈیرے پانی کا رُخ اپنی زمین بچانے کیلئے دوسری طرف موڑ دیتے ہیں۔ پانی کی ضرورت ہوتی تو اپنی زمینوں کی طرف نہریں کھول دیتے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب آبی وسائل کے وزیر بنا دیئے گئے۔ وہ کالاباغ ڈیم کے مخالف ہی نہیں دشمن ہیں۔ ان سے خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اب ان کی زمین آباد ہو گی یا انکے سر پر دست شفقت رکھنے والوں کی۔ انکی طرح مزید 24وزراء بھی ضمانتوں پر رہا ہیں۔ عمران خان کی حکومت گئی۔ رجیم چینج آپریشن کامیاب رہا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد آصف زرداری اور شہبازشریف کی پھرتیاں، چلنیاں پھرنیاں، آنیاں جانیاں قابل دید تھیں۔ عدالتوں میں پیش ہونے کا معاملہ ہو تو لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں، چُک پڑی ہوتی ہے۔ عدالت میں کھڑے ہونے سے معذور ہوتے ہیں۔ اقتدار کا ایسا نشہ کہ ان کو ’’دُڑکی‘‘ لگانے کو کہا جائے تو گریز نہیں کریں گے مگرانکی نظراگر نہیں ہے تو عوام کی طرف نہیں ہے۔انکے مسائل کی طرف نہیںہے۔ عوام جل رہے ہیں، مر رہے ہیں، جھلس رہے ہیں مگر یہ چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔یہ عوام کو ریلف دینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کا جینا دو بھر ہورہا ہے۔لوڈشیڈنگ ایک عذاب کی طرح مسلط ہورہی ہے۔ڈالر پھر اونچی اُڑان بھر رہا ہے۔ملک میں ڈیزل کی قلت ہورہی ہے۔ پٹرول مہنگا کرکے پاکستانیوں کی عید کی خوشیاں نوچنے پر مفتاح اسمٰعیل تلے ہوئے ہیں۔ایک طرف یہ حکومت سابق حکمرانوں پر معیشت کی بدحالی کاالزام لگاتے ہیں دوسری طرف مفتاح کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ عمران خان حکومت مضبوط معیشت دے کر گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن