آخر کب تک؟

19 اپریل کی رات کو سندھ میں دادو کی تحصیل میہڑ کے دو دیہات میں آگ لگنے سے نو بچے زندہ جل گئے ، 140 سے زیادہ گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے ۔ 160 سے زائد مویشی آگ کی نظر ہو گئے ۔ گیارہ گھنٹے آگ کے شعلے فضا میں بلند ہوتے رہے ، لوگ مدد کیلئے پکارتے رہے ، کوئی فائر بریگیڈ کی گاڑی آئی نہ ریسکیو ٹیم ، نہ کوئی ایمبولنس اور نہ ہی کوئی انتظامیہ ۔ اس گاوٗں کے نزدیک دو شہر لگتے ہیں ایک میہڑ اور دوسرا خیر پور جس کی دونوں فائر برگیڈ کی گاڑیاں خراب تھیں جبکہ دادو اور لاڑکانہ سے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں فعال ہونے کے باوجود نا پہنچ سکیں، لوگ جلتے رہے ، مرتے رہے، زمین جل کر خاکستر ہوتی رہی اور عین اسی وقت ہمارے حکمران طاقت کے ایوانوں میں عہدوں کی بندر بانٹ میں لگے ہوئے تھے ۔ ایک طرف اقتدار کی ہوس میں مصروف حکمران اور دوسری طرف آگ کے شعلوں میں جلتی عوام ۔ یہ سندھ حکومت کی گزشتہ چودہ سال سے جاری کارکردگی ہے ۔ زردادری صاحب نے پچھلے ایک ماہ میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے اسمبلی ممبران کی جس طرح اسلام آباد میں منڈی لگائی ہوئی تھی وہ ساری دنیا نے اپنے سامنے دیکھی وہ ایک طرف مجرموں کو تحفظ دینے اور دوسری طرف وفاقی کابینہ میں وزارتیں حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔ لوگ مر رہے ہیں تو مرنے دیں ، انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ صحت، تعلیم ، صاف پانی کی سہولت سے محروم سندھ جہاں انسان جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور المیہ یہ ہے کہ انسا نیت سسک سسک کے مر رہی ہے لیکن ان کا بھٹو زندہ ہے۔ 
 دادو کا فیض محمد چانڈیو منگل کی رات سے صبح تک بے یارو مددگار مسلسل جلتا رہا ، امام الدین چانڈیو کے چار بچے ، اور بہار چانڈیو کے تین بچے بھی جان سے گئے ۔ دو جھونپڑیاں ، چار بکریاں ، برتن ، کپڑے سب جل گئے یہاں تک کہ میری کتاب بھی جل گئی ، نرملا سور ی جو اس گاوٗں کی رہائشی ہے جس کا باپ مزدوری کرتا تھا اپنے پہ بیتی ظلم کی داستان ،سناتے خون کے آ نسو رو رہی تھی ۔ ایسے میں نہ آسمان گرا ، نہ زمین پھٹی ، نہ ہی قاضی وقت نے آدھی رات کو عدالت لگائی۔سندھ کے لوکل گورنمنٹ محکمہ میں اتنی کرپشن ہے کہ وہاں کوئی چیز ثابت نہیں ہے ۔ ٹی ایم ایز کے فنڈز حکمران جماعت کے رہنما اپنی جاگیر سمجھ کے کھاتے ہیں ۔ سرکاری ملازموں کا بھی یہاں یہ حال ہے کہ دادو میں لگی آگ گیارہ گھنٹے انسانی جسموں ، جانوروں ، لوگوں کی برسوں کی محنت ان کے گھروں اور اناج سمیت زندگی بھر کی جمع پونجی کو جلا کے راکھ کر رہی تھی اور علاقے کا اے سی ، ڈی سی ، ڈی پی او کوئی اعلی سرکاری عہدیدار وہاں نظر نہیں آیا ۔ یہ سب لوگ اسی بدبودار نظام کا حصہ بن چکے ہیں جو صرف حکمرانوں کو دن رات نوازتا ہے اور عام آدمی کیلئے یہ خادم کی بجائے حاکم بن جاتے ہیں اور جہاں معاشرہ ظلم سہنا شروع ہوجائے تو ضمیر کی موت واقعی ہو جایا کرتی ہے اور ہمارے ان سرکاری افسران کے ضمیر واقعی مردہ ہو چکے ہیں۔ وہاں سے آنیوالی تصویریں دل دہلا رہی ہیں اور میڈیا پہ ایسی مجرمانہ خاموشی چھائی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ ایک ما ہ قبل آصفہ بھٹو کو حادثاتی طور پر ایک پلاسٹک کے ڈرون سے ہلکا سا زخم آ جاتا ہے تو پورا میڈیا آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے ۔ بلاول بھٹو آئی ایس آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے اور اب یہ حال ہے کہ زندہ لوگوں کے جل جانے پہ بھی کہیں کوئی سو موٹو نہیں ، کوئی تحقیقات نہیں ، کوئی شنوائی نہیں ۔
 ہماری عدلیہ کا یہ حال ہے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کیس کی تاریخ ان کی وفات کے کئی ماہ بعد لگتی ہے جس میں وہ عدلیہ سے آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت مانگتے نظر آتے ہیں اور نظر بندی میں ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ عمر قید کے مجرم لال خان جسکو کینسر تھا نے 2020ء میں عدالت کو درخواست دی کہ اس کو جیل سے باہر ہسپتال میں علاج کروانے کی اجازت دی جائے 2022ء میںاس کی درخواست پہ عدالت میں سماعت ہوئی تو پتہ چلا وہ تو 2020ء میں ہی وفات پا چکا ہے۔پنجاب میں 52 ہزار اور پختونخواہ میں 12 ہزار مرغی چوری جیسے معمولی جرائم میںلوگ جیلوں میں بند ہیں یہ ہے نظام عدل یہاں پہ عام آدمی کیلئے دوسری طرف عین جس دن آپکے ملک کے موجودہ وزیر اعظم اور انکے صاحبزادے پہ کرپشن کیسسز پہ فرد جرم عائد ہونا تھی اسی دن انہیں وزارت اعظمی کا منصب سونپ دیا جاتا ہے اور انکے صاحب زادے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا جاتا ہے ۔ ہماری نئی تشکیل پائی جانے والی کابینہ کے وزراء میں سے چوبیس وزراء پہ بد عنوانی ، کرپشن کے سنگین مقدمات ہیں اور وہ ضمانت پہ جیلوں سے باہر ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہی سند ھ جہاں دادو میں سانحہ پیش آتا ہے اس صوبے کا قائم مقام گورنر ایک ایسا شخص ہے جس کے گھر سے سونا اور لاکھوں کرنسی کے نوٹ برآمد ہوتے ہیں اور اسکے گھر کو ہی سب جیل کا درجہ دیدیا جاتا ہے ۔ جمہوریت کے نام پہ یہ اس ملک کی عوام کے ساتھ یہ کیسا گھنائونا مذاق ہے ۔ مسجد سے جوتے چرانے پر غریب کو نشان عبرت بنانے والے اربوں روپے لوٹنے والوں کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن