میں نے معاشرے کے ہر ہر پہلو سے لے کر اسکے ہر ادارے کو باریک بینی سے پرکھا ۔ اور بہت غوروفکر اور تحقیق کے بعد اگر میں معاشرے کے حالات کو ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ لفظ ‘‘بے ترتیبی ‘‘ ہوگا ۔ بے ترتیبی کی لہریں اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ ہمیں اس معاشرے پہ ایک نظر ڈالنے سے یوں لگتاہے کہ معاشرہ مہذب اور تربیت یافتہ معاشرے اور اقوام سے بہت دور ہے ۔
ہمارے معاشرے کی بے ترتیبی بے ہنگم زاویہ اتنا بگڑ چکا کہ ہمارا معاشرہ اب ہر مسئلے کی دریافت گاہ بن چکا ۔یوں لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر چھوٹے مسئلے سے لے کر ہر بڑے اور پیچیدہ مسئلے کا نقطہ آغاز بن چکا۔ایک آئیڈیل معاشرے کا بنانے کیلئے پہلے ہمیں اس کے مسائل کا علم ہونا ناگزیر ہے ۔اس معاشرے کو بیہنگم بنانے میں مختلف عناصر قابل ذکر ہیں ۔ جس میں فرسودہ نظام تعلیم و تربیت ، بے روزگاری ، کرپشن رشوت ، ظلم ، انصاف کا فقدان جاگیردارانہ نظام اور ان میں بھی دو مسائل ایک مذہبی پیشوائیت اور مرد کی اجادہ رادی پدر شاہی معاشرے کا قیام جو ان سب سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم بھی ایک تجارت بن گیا ہے جہاں مافیہ فقط پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہے ۔ تعلیم کا بنیادی مقصد تحقیق غوروفکر,حقائق کی جانچ پڑتال اور انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے لیکن جب ہم اپنے نظام تعلیم کو اس پیمانے پر پرکھتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ہمارا نظام تعلیم ایسا ہی ہے کہ بلی کو بھی درخت پہ چڑھنا ہوگا ۔ سانپ کو بھی درخت پہ چڑھنا ہوگا اور شیر کو بھی ۔ یعنی بچے کے ذہانت کو جانچے بغیر ہر بچہ ایک ہی کتاب پڑھنے پہ مجبور ہے ۔
موجودہ نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری اور بعد ازاں نوکری کا حصول ہے۔امتحانی نظام تعلیم جو برصغیر میں انگریزوں کے وقت رائج تھا,آج بھی وہی چل رہا ہے۔یہ نظام طلبائ کی ذہانت پرکھنے اور ان کی صلاحتیں اجاگر کرنے کی بجائے انھیں رٹو طوطے بننے پہ مجبور کرتا ہے۔اور یہ کسے ممکن ہے کہ کوئی بھی طالب علم سو فیصد نمبر کیسے لے سکتا ہے ۔ 2021کے انٹر میڈیٹ اور میٹرک کے نتائج جس میں سینکڑوں طلبہ نے 100فیصد نمبر لئے وہ ہمارے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنا ۔اس نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری یعنی کاغذ کے بے جان ٹکڑے بیچنا ہیجبکہ انسانی فطرت کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں علم ہوگا کہ انسان اپنی فطرت میں متجسس واقع ہوا ہے۔ اپنے اردگرد کی چیزوں اور اپنے ماحول کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کا شوق ہی اسے تعلیم کی طرف لاتا ہے مگر تحقیق اور غوروفکر تو ہمارے نظام تعلیم میں سرے سے مفقود ہے فن لینڈ کا بہتریں تعلیمی نظام تصور کیا جاتا ہے ۔ اس ملک نے اپنے تعلیمی نظام کی بدولت برطانیہ اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔امریکی ماہر ینِ تعلیم بار بار اس سسٹم کا جائزہ لے رہے ہیں ۔اور اس نظام کی خوبیوں کو اپنا رہے ہیں ۔فن لینڈ اس وقت ْدنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے بچوں کی تعلیم کے لیے بہت سے غیر روایتی طریقے اپنائے جہاں بچوں کی ابتدائی تعلیم میں بڑے بڑے بستوں اور کتابوں کا کوئی شائبانہ نہیں ملتا ۔بچوں تعلیم کے ساتھ انسانی رویوں سے روشناس کروایا جاتا ہے ۔ مذہبی پیشوائیت’اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے اسلام کے علاوہ دیگر ادیان، مثلاً نصرانیت، ہندومت اور یہودیت کا تصور ہے۔ بعض اوقات مذہبی پشوائیت کسی بھی معاشرے کو تباہ کر سکتی ہے اور اسکی منہ بولتی مثال ہمارا اپنا ملک ہے ۔ ہمارا معاشرہ جو کہ جدید ، باشعور اور تربیت یافتہ نہیں اسکی بڑی وجہ ہمارے کئی مذہبی پیشوا یعنی ملاء ہیں ۔ہمارے معاشرہ ایک پدرشاہی معاشرہ ہے جس میں مرد کی اجارہ داری ہے ۔ کچھ بڑے شہروں کے علاوہ پاکستان کی اکثر دیہاتی آبادی میں مرد خود کو عورت کا حاکم جبکہ عورت کو اپنی غلام سمجھتا ہے ۔مرد سمجھتا ہے کہ وہ عورت کی قسمت کا اچھا برا ہر طرح کے فیصلے کا اختیار رکھتا ہے ۔آئیڈیل معاشرے کا قیام شعور ، جدید تعلیم و تربیت اور قرآن کی حقیقی تعلیمات سے عمل میں آئے گا ۔ مدارس میں پڑھنے والے بچے بھی قرآن کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم سے روشناس ہو سکیں ۔
اور انکے امتحانات میں سائنسی مضامین کا امتحان بھی شامل کیا جائے ۔ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کیلئے جدید تعلیم ناگزیر ہے ۔ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔اور کسی بھی مدرسے کے طالب علم کو اس وقت تک سند سے نہ نوازا جائے جب تک اسے اقلیتوں کے حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں نہ پڑھا دئیے جائیں ۔میرے خیال سے دین کی خدمت بے لوث ہونی چاہیے ۔تمام مساجد سرکاری تحویل میں ہونی چاہییے ۔مرد کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے عورت کو باشعور بنانے کی بہت ضرورت ہے ۔ اور شعور کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے ۔ انہیں انکے حقوق کے متعلق مکمل آگاہی فراہم کرنی چاہیے ۔ ایسے قوانین بننے چاہیں جس سے عورت کو زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں برابر حقوق مل سکیں ۔ ظلم کے خاتمے اور بہترین معاشرے کے قیام کیلئے ہمیں اسوہ حسنہؐ کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہوگا جب اسلامی تعلیمات کو پورے معاشرے میں پھیلایا جائے گا تب ہی ایک بہترین معاشرہ قیام پذیر ہوگا ۔