کوروناوبا کے بعد چین نے اپنے تشخص کی بحالی اور دنیا سے تعلقات استوار کرنے کے لیے مربوط طریقے سے سفارتی سطح پرکامیابیاں حاصل کیں۔ برازیل اور دوسرے متعدد ممالک کے سربراہان کو مدعو کر کے دنیا خاص کر یورپ کی توجہ حاصل کی۔ ایران اور سعوی عرب کے درمیان ثالث کا کردار کیا جس سے امریکا کا اس خطے میں اثر رسوخ کم ہوا کیونکہ چین کی مصالحتی حکمتِ عملی کی کامیابی اس خطے میں اس لیے اہم ہے کہ ماضی میں جانبدارانہ اورجارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکا اس خطے میں متنازع حیثیت اختیارکر چکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کو اس خطے کے علاوہ دنیا میں ناکامیوں اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ عوامی سطح پرامریکا اور اسرائیل کے درمیان اختلافات سامنے آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا کا کردار خطے میں متنازع ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش سے پیچھے ہٹ جانے کا مطالبہ اور مجوزہ عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دونوں ریاستوں کے تعلقات میں کھنچائوکا سبب ہیں۔
دوسری طرف، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی ہم منصب ایلی کوہن کو فون پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان پائیدار دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا جو کہ خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر انتہائی معنی خیز ہے کیونکہ اسرائیلی دفاعی افواج ( آئی ڈی ایف ) کے چیف آف اسٹاف ہر زی حلوی کے مطابق اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے اور ایسا وہ امریکا کی مدد کے بغیر بھی کر سکتا ہے۔ آئی ڈی ایف حفظ ماتقدم کے طور پر اگلے چند سال میںحملہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی اور جغرافیائی فاصلے کے باوجود یہ حملہ زبر دست ہوگا۔ شام میں ایران کے دو فوجی اہلکاروں کو اسرائیل کے میزائل حملے میں ہلاک ہونے کے بعدایران اور اسرائیل کے درمیان صورتحال کشیدہ ہے اور ایران کی اپنے فوجی اہلکاروں کا انتقام لینے کے لیے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی سے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے ۔
چین اپنی مصالحتی حکمتِ عملی کے تحت عالمی سلامتی اور ترقی کے لیے دنیا کو متعدد تجاویز بھی دے چکا ہے۔ دنیا میں چین مرکزی حیثیت رکھنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس مصالحتی حکمت ِ عملی کے باعث دنیا میں ایک ثالث کے طور پر احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے، لہٰذا اب چین نے اسرائیل اور فلسطین کو مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش کی ہے ۔ اسرائیلی اور فلسطینی وزرائے خارجہ نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خارجہ ایلی کوہن نے چین کی ثالثی میں مذاکرات کی بحالی کو حوصلہ افزا قرار دیا جبکہ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے چین کی ثالثی میں جلد از جلد مذاکرات کی بحالی کی حمایت کی۔ ری پبلکن سینیٹرلنڈ سے گراہم نے چین کی ثالثی میں سعوی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے اور تعلقات کو معمول پر لانے کو ایک مسئلہ قرار دیا۔ اسی طرح سعودی عرب کے ایران کے ساتھ معاملات پر بھی ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے کا عندیہ دیا۔ شام کے عرب لیگ میں واپسی کی کاوشوں کو سعوی عرب کی قیادت پر واضح کیا کہ بشار الاسد سے کسی بھی معاہدے کی صورت میں جو کہ شمال مشرقی شام میں امریکی موجودگی کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بنے گا۔ امریکا اس پر مزاحمت کرے گا ۔ امریکی ری پبلکن سینیٹر گراہم نے واضح کیا کہ بغداد میں امریکا کے 2500 فوجی موجود ہیں ایران امریکا کو اس خطے سے نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ امریکی افواج عراق میں رہیں ایران جانتا ہے کہ ہم ایران کے طویل مدتی مقاصد کے راستے میں رکاوٹ ہیں ۔
امریکا اور اس کے اتحادی ممالک چین کی مصالحتی حکمتِ عملی کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے اسرائیل کے ساتھ شاطرانہ دوہرے رویے نے جہاں ایران اور شام کے لیے مشکلات پیدا کیں وہیں یوکرائن میں جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے میں یورپ اور امریکا مل کر کھیل رہے ہیں۔ یکم جنوری 2022 ء سے 17 اپریل 2023 ء تک کے عرصے میں جرمنی نے یوکرائن کو 2 ارب 70 کروڑ یورو مالیت کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان دیا ۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جیمز سٹو لٹنبرگ کا واشنگٹن میں نیٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روس کو نیٹو ممالک کی سلامتی کے لیے براہ راست سب سے بڑا خطرہ قرار دینا ایشیاء میں عالمی جنگ کے خطرات کو تقویت دیتا ہے ۔
امریکا ، جنوبی کوریااور جاپان کی مشترکہ بحری میزائل دفاعی مشقیں شمالی کوریا کو اشتعال دلانے اور علاقے میں کشیدگی بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں۔ شمالی کوریا نے امریکا کی فوجی مشقوں کو علاقائی کشیدگی کو دھماکے کے دہانے پر لے جانے سے تعبیر کیا اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کی صورت میں ضروری کارروائی کی دھمکی بھی دی۔ امریکا اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ایشیاء کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ عالمی جنگ کا میدان بنانا چاہتا ہے جبکہ چین کی مصالحتی حکمتِ عملی عالمی معاشی روابط بڑھانے اور ’کثیر قطبی دنیا‘ کے خیال پر مبنی ہے جو کہ امریکی تسلط کے متبادل تصور کیا جاتا ہے۔ روسی صدر پیوٹن بھی ’یک قطبی دنیا‘کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں جس میں طاقت کا بہیمانہ استعمال کر کے دنیا کو غیر محفوظ کر دیاہے۔ ’کثیر قطبی دنیا‘ کا تصور برابری او ر ممالک کے درمیان احترام کے رشتے پر مبنی نظام دنیا کے لیے محفوظ اورحیات کی نوید ہو گا ۔