مناظر عباس:خیروبرکت کاسرچشمہ

میں فیروزپور روڈ پر واقع ایک چھوٹی سی بستی پاک عرب سوسائٹی میں پچھلے ڈیڑھ عشرے سے مقیم ہوں ۔ یہ سوسائٹی سینیٹر گلزار کی تخلیق ہے ۔ یہ ناانصافی ہوگی کہ اگر یہاں منظر عباس شاہ کا تذکرہ نہ کیا جائے جنھوں نے اس سوسائٹی کا ناک نقشہ بنانے میں سینیٹر گلزار کا بھائیوں کی طرح ساتھ دیا۔ عام لوگ ان کے سرگرم کردار کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ گویاوہ اس سوسائٹی کے حصہ دار ہوں لیکن انھوں نے سوسائٹی کے مین گیٹ کے ساتھ ایک پرشکوہ پلازہ بناکر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کردیں ۔ انھوں نے اپنی اولاد کے لیے رہائشی پلاٹس اور کمرشل پلازے بھی تعمیر کیے۔اللہ کو منظور نہ تھا کہ وہ اور سینیٹر گلزار اس سوسائٹی کی جولانیاں دیکھ سکیں۔
سینیٹر گلزار کی وفات کے بعد سوسائٹی کا انتظامی ڈھانچہ تتربتر ہوگیا، کالونی میں خاک اڑنے لگی۔ چور وں ، ڈاکوئوں کا راج ہوگیا، روشن گلیاں اور سڑکیں اندھیروں میں ڈوب گئیں۔ جو چند ایک پارک تھے وہاں کمر کمر تک گھاس اگ آئی ۔ سوسائٹی کا انتظامی ڈھانچہ اس قدر درہم برہم ہوا کہ رہائشیوں کو پانی سپلائی کرنے والے تین ٹیوب ویلز کے بجلی بل ڈیفالٹ کرگئے اور ان کے بجلی کنکشن کٹ گئے۔ یکایک ہنستے بستے گھر کربلا کا منظر پیش کرنے لگے۔ لیسکو کاادارہ اس قدر سنگ دل نکلا کہ اس نے یہ نہ دیکھا کہ وہ سوسائٹی کے تین ہزار گھروں سے کروڑوں کا بجلی بل وصول کرتا ہے، لیکن اگر سوسائٹی کے تین ٹیوب ویل کا چند لاکھ کابل نہیں دیا جاسکا تو وہ ان کا کنکشن نہ کاٹے اور وہ یہاں کے 15ہزار رہائشیوں کو پیاسا نہ مارے۔ رہائشیوں نے لیسکوکے سامنے بہت دادفریاد کی لیکن جواب ملا کہ لیسکو قانون کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ رہائشی ہر طرف سے مایوس ونامراد ہوگئے۔ 
مایوسیوں کے اس گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روشن ستارہ ابھرا، یہ سینیٹر گلزار کے قریبی ساتھی سید منظر عباس کے جواں سال صاحبزادے سید مناظر عباس تھے جنھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی بستی کے ہمسایوں کو پیاس سے بلکتا نہیں دیکھ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رہائشی ایک ہفتے تک پانی کی بوند بوند کوترس گئے تھے  کہ نہ صبح ہاتھ منہ دھونے کو پانی میسر تھا، نہ بچوں کی تیاری کے لیے نہ گھروں میں ہانڈی روٹی کرنے کو پانی دستیاب تھا۔ 
سوسائٹی میں کچھ لوگ پیسے والے بھی تھے جنھوں نے اپنے گھروں میں ٹیوب ویل لگوالیے اور کچن کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں گھروں میں ذخیرہ کرلیں۔ تین مرلہ اور پانچ مرلہ کے رہائشی حسرت سے ان کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔ انھوں نے اپنی ساری امیدیں سید مناظر عباس سے وابستہ کرلیں ۔ انھوں نے انھیں یقین دلایا کہ اگر وہ انھیں پانی مہیا کردیں اور سارے ٹیوب ویل چلادیں تو وہ ان کے بے حد ممنون ہوں گے اور یوٹیلٹی بل ان کو ادا کرنا شروع کردیں گے ۔ سیدمناظر عباس کشتیاں جلاکر میدان میں کودے اورانھوں نے سوسائٹی کے تینوں ٹیوب ویلزکے بقایا جات 65لاکھ کی خطیر رقم اپنی جیب سے ادا کردیے اور یوں ایک مرتبہ پھر ٹیوب ویلز چلنے لگے۔
بے شک سیدمناظر عباس جیسا انسانیت کا خیرخواہ شخص میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ انھوں نے کسی دنیاوی لالچ و طمع کے بغیر ایک پوری بستی کی اللہ کی رضا کی خاطرپانی کی ضروریات پوری کردیں۔ ان کا تو ارادہ تھا کہ وہ سوسائٹی کے ارباب اختیار کی بدنظمی کو بھی درست کردیں گے اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنادیں گے ۔صفائی کے مثالی انتظامات کردیں گے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے فون پر پوچھا کہ آپ اتنے زیادہ اخراجات کیوں کررہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ اگرمیری ساری دولت بھی صرف ہوجائے تو میں رہائشیوں کے دل و دماغ کو سکون و چین فراہم کرکے رہوں۔
بلاشبہ وطن عزیز میں فلاحی اداروں کی کوئی کمی نہیں ۔کئی ادارے روزانہ لنگر تقسیم کرتے ہیں، کئی این جی اوززلزلے اور سیلاب سے بحالی کے لیے متاثرین کی امداد کرتی ہیں مگر کوئی ایک فردِ واحد اپنے اردگرد بسنے والوں کی تمام اجتماعی ضروریات پوری کرے ، ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ سیدمناظر عباس کو تھپکی دینے والے بھی کم نہیں تھے۔ غریب تو گھروں میں ان کے لیے دعائیں کررہے تھے ،کچھ متحرک لیڈران کرام نے ان کو کھل کر داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ان میں میاں طاہر اور میاں اکبر پیش پیش دکھائی دیتے تھے۔ میاں طاہر پر اللہ نے اپنے انعامات کی بارش کررکھی ہے ، انھوں نے بھی رہائشیوں کے بعض مسائل حل کرنے کے لیے اپنی تجوری کے منہ کھول دیے۔دیکھتے دیکھتے ایک اجڑی بستی پھر سے سرسبزوشاداب نظر آنے لگی۔
اس پر پاک عرب انتظامیہ نے سوچا کہ اگر وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہی تو سوسائٹی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس پر اس نے بھی متحرک و سرگرم ہونے کا فیصلہ کیا،خاص طور پر نئے کوآرڈینیٹر زبیر صاحب نے رہائشیوں کے مسائل و ضروریات کا ازسرنو جائزہ لیا اور وہ پچھلے دو ماہ سے بے حد متحرک و سرگرم نظر آتے ہیں۔یوں سید مناظر عباس نے جو روشن مثال قائم کی تھی ، وہ سوسائٹی کے رہائشیوں کے لیے مینارہ نور اور باعث ِ برکت ثابت ہوئی ۔ اب اس آبادی نے ایک بار پھر انگرائی لی ہے ۔اللہ کرے پورے ملک میں مناظر عباس اور میاں طاہر جیسے باکردار اور انسانیت کے خیرخواہ لوگ متحرک و سرگرم عمل رہیں تو چراغ سے چراغ جلے گا، اندھیروں کا راج ختم ہوگا ۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن