آئین‘ قانون اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ ہونے کی باتیں پہلے شاید رسماً اور محاورتاً کی جاتی ہوں گی مگر سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے انکی ریٹائرمنٹ کے بعد جو باتیں منظرعام پر آرہی ہیں‘ وہ تو انکے ہاتھوں آئین و قانون سے کھلواڑ سے بھی کہیں اونچے درجے کی کارستانیاں یا شاہ فرمانیاں ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جنرل باجوہ کوئی گوشت پوست کے انسان نہیں‘ کوئی مافوق الفطرت چیز ہیں جن کے ’’مسند نشین‘‘ رہنے تک اس ارض وطن پر کوئی پتہ بھی انکی منشاء کے بغیر ہل نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی ذات گرامی کے حوالے سے جو بیان دلپذیز جاری کیا وہ سیاست کے گند میں انکے کسی معصوم چہرے کی جھلک دکھا رہا تھا مگر اب تو انکے اصل چہرے سے جیسے جیسے نقاب کشائی ہو رہی ہے‘ انکے کردار کے ناتے انکی شخصیت کے کچھ اور ہی پہلو اجاگر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جاتے جاتے مضطرب قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ اب سکون سے رہے۔ میں تو اب تاریخ کے گم گشتہ ابواب میں کہیں محواستراحت رہوں گا اور قوم کے ذہنوں میں کسی قسم کی تلخ یادوں کے جھکڑ نہیں چلنے دوں گا مگر اب تو جو اینٹ بھی اکھاڑو‘ اسکے نیچے سے ’’باجوہ ازم‘‘ نکل رہا ہے۔ عمران خان کا تو خیر سے اقتدار ہی ’’باجوہ ازم‘‘ کا مرہون منت تھا مگر موجودہ اتحادی حکومت کے وزراء کرام کے سپریم کورٹ میں جونیئر ججوں کے تقرر کے حوالے سے جو انکشافات راز ہائے درونِ خانہ کی طرح کھل کر سامنے آرہے ہیں وہ موجودہ حکمرانوں کو بھی باجوہ ازم کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ظاہر کر رہے ہیں۔ ہماری دانشور اینکر نسیم زہرا نے حامد میر کی زبانی باجوہ ازم کے حوالے سے جو انکشافات کرائے وہ تو باجوہ صاحب کے ہاتھوں ہماری عزیمتوں کو ہماری ہزیمتوں میں بدلتے نظر آرہے ہیں۔ عقل دنگ اور دماغ مائوف ہے کہ کیا کسی ملک کی مسلح افواج کا کمانڈر انچیف خود اپنی فوج پر اسکے پاس موجود اسلحہ اور اسکی جنگی صلاحیتوں کے حوالے سے ناکارہ ہونے کا لیبل لگا کر یہ ہزرہ سرائی کر سکتا ہے کہ ہماری فوج دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لئے دشمن کے ساتھ مفاہمت کرلی جائے۔
حد تو یہ ہے کہ اس وقت کے حکمران (عمران خان) بھی موصولہ شہادتوں کے مطابق باجوہ صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور دشمن ملک کے وزیراعظم مودی کو انکی جانب سے کسی مشاورت کے بغیر دورۂ پاکستان کی دعوت پر صاد کرلیا۔ ہائے ہائے ’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند‘۔
یہ وہی باجوہ صاحب ہیں جو عمران حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر کھڑے ہونے کا تاثر دیتے دیتے اس وقت کی سیاسی اپوزیشن قیادتوں کو اپنے پاس مدعو کرتے رہے اور انکے ساتھ سات سات گھنٹے کی بے تکان نشست میں یہ لیکچر دیتے کہ افواج پاکستان کا ملک کے سیاسی معاملات و تنازعات سے کوئی لینا دینا نہیں‘ فوج غیرجانبدار اور اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے محض اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے اور انکے ایسے بیانات دلپذیر پر میرے جیسے دانشور ان کیلئے داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہے۔ اب یہ عقدہ کھلا ہے کہ باجوہ صاحب ہی مدارالمہام تھے جنہوں نے سیاسی گند کو نہ صرف پھیلنے کا موقع فراہم کیا بلکہ اپنے ’’عملی کردار‘‘ کے ذریعے اس گند کو مزید گدلا بھی کرتے رہے۔ اب عمران خان کے اس بیان نے میری حیرتوں کے در مزید کھول دیئے ہیں کہ انہوں نے باجوہ صاحب کے کہنے پر ہی اسمبلیاں توڑی ہیں۔ وہ تو اسمبلیاں توڑنے کے اقدام کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوری انتخابات کیلئے اپنی بہترین اور بصیرت افروز حکمت عملی قرار دیکر اس سیاست کا باقاعدہ کریڈٹ لیا کرتے تھے۔ اب اپنی اس سیاسی حکمت عملی کو بھی وہ باجوہ صاحب کا کریڈٹ بنا رہے ہیں مگر میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ کیا باجوہ صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عمران خان کی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پی کے کی اسمبلیاں تو رواں سال جنوری کے اختتام پر تحلیل کرائیں جبکہ باجوہ صاحب کو اس وقت ریٹائر ہوئے بھی تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔
بالفرض محال باجوہ صاحب نے عمران خان صاحب کو اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ بطور کمانڈر انچیف دیا تھا تو کیا انکی اپنی سیاست اتنی بانجھ ہے کہ انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کے باجوہ صاحب کے مشورے کو انکی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تھامے رکھا اور پھر اس مشورے پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ مجھے تو باجوہ صاحب کے حوالے سے چاروں طرف لگی آگ کے معاملہ میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ گھوڑے سے گرے شاہسوار کی بے بسی بھانپ کر ہر ایک کو اپنی غلطیوں کا ملبہ ان پر ڈالنے کا موقع مل گیا ہے۔ شاید باجوہ صاحب کی اپنی کیفیت بھی منیر نیازی کے اس شعر والی ہو کہ:
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
اگرچہ باجوہ صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے قصۂ پارینہ ہونے کا عندیہ دیا مگر نیتاً وہ کچھ بلاگرز سے کھلی ڈہلی گفتگو کرکے ’’مینوں وی تے چھیڑو‘‘ کا پیغام دیتے رہے۔ اب انکے حوالے سے چار دانگ عالم رونق لگی ہوئی ہے تو شاید اپنے حوالے سے راسخ ہونیوالے اس تصور پر بھی خوشی سے جھومنے لگتے ہوں گے کہ ’’ایہہ وی یاراں دا ای کم اے‘‘
انہوں نے آرمی چیف کے منصب پر فائز ہونے کیلئے جس انداز کی لابنگ کی‘ میرے دوست اور اے این پی کے رہنما سہیل اختر ملک اسکے گواہ بلکہ اس منصب تک انکی راہ ہموار کرنے کا ایک کردار بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ انگلستان سے ملک واپس آئے تو دیرینہ مراسم کے ناطے میرے پاس بھی تشریف لائے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت آرمی چیف کے منصب پر ہی فائز تھے۔ باتوں باتوں میں سہیل اختر ملک صاحب نے جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کا قصہ چھیڑ دیا۔ اس منصب کیلئے ان کا نام منظر عام پر آنے کے بعد انکے قادیانی خاندان سے تعلق کے الزامات پر مبنی داستانیں زبانِ زدعام ہونے لگیں جس میں اس وقت کی حکمران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر علامہ ساجد میر کے ایک فتوے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس فتوے میں گویا باجوہ صاحب کے قادیانی خاندان سے تعلق ہونے کی تصدیق کی گئی تھی اور ایک خیال یہ بھی تھا کہ جنرل باجوہ صاحب کے بدخواہ حکومتی حلقوں کی جانب سے علامہ ساجد میر کے فتوے کا تیر چلایا گیا ہے۔
سہیل اختر ملک کے بقول جنرل باجوہ کے ساتھ انکے پہلے سے مراسم تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انکے علامہ ساجد میر کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں چنانچہ باجوہ صاحب نے انکے ساتھ خصوصی رابطہ کیا اور کہا کہ وہ علامہ ساجد میر کو انکے خلاف فتویٰ واپس لینے پر قائل کریں۔ اس کیلئے انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے کٹڑ مسلمان ہونے کے ثبوت بھی فراہم کئے چنانچہ انہوں نے ان ثبوتوں کے ساتھ علامہ ساجد میر سے بات کی جو اس وقت عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں تھے‘ علامہ صاحب نے ان ثبوتوں کی بنیاد پر جنرل باجوہ صاحب کے بارے میں جاری کیا گیا فتویٰ واپس لے کر انکے خاندان کے مسلمان ہونے کی تصدیق کی۔ اس طرح انکے خلاف جاری پراپیگنڈا کے بادل چھٹ گئے اور ان کا آرمی چیف کے منصب پر تقرر عمل میں آگیا۔
اس واقعہ کا حوالہ دینے کا مقصد جنرل باجوہ صاحب کے حوالے سے صرف اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ انہیں سینیارٹی کے بغیربھی آرمی چیف کے منصب پر فائز ہونے کا کتنا ’’کریز‘‘ تھا۔ ظاہر ہے اس منصب کے حوالے سے انکے دل میں جو جو بھی خواہشات موجزن رہی ہوں گی انکی تکمیل کیلئے بھی انہوں نے دل و جان سے زور لگایا ہو گا اور اس منصب پر توسیع لینے کا پس منظر بھی یہی ہوگا۔ مگر جناب ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو بھی تو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ کیا محض اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے ہماری سیاسی قیادتوں کو ان شخصیات کے تابع فرمان ہو جانا چاہیے جو خود ان کا سہارا حاصل کرکے سیاہ و سفید بننے کی خواہش اپنے دل میں پال رہی ہوتی ہیں۔ اگر ہماری سیاست میں یہی رسم اور روایت برقرار رہی تو پھر ہمیں آئین و قانون اور سسٹم کیلئے فکرمند رہنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔