عیسیٰ بمقابلہ ثاقب
پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
تاریخ جب بھی مرتب ہوگی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے کردار الگ الگ پیرائے میں یاد رکھے جائیں گے، مورخ رقم کرے گا کہ ایک کردار ظلم کی بھٹی میں پھینکا گیا جبکہ دوسرے نے ظلم کی بھٹی بھڑکائے رکھی، تمام تر مشکلات کے باوجود ایک نے
آئین کو ہم پیالہ ہم نوالہ بنایا جبکہ دوسرے نے بے انصافی کا علم بلند کئے رکھا، ایک نے قوانین کی مکمل پیروی کو شیوہ بنایا جبکہ دوسرے نے قوائد کو بیدردی سے پائوں تلے روند ڈالا، ایک نے عمل کرکے ایمانداری کا سکہ جمایا جبکہ دوسرے نے کھلم کھلا انصاف کی خلاف ورزی کی ، ایک کسی تقریب میں گیا تو نہ صرف اسے احترام سے سنا گیا بلکہ تسلیم بھی کیا گیا جبکہ دوسرا اول تو تقریبات میں جانے سے کتراتا رہا اور اگر کہیں گیا بھی تو سیکورٹی ہمراہ لیکر گیا، ایک کو عزت سے بلایا جاتا رہا ہے جبکہ دوسرا عزت کو ترستا رہا،ایک اتنا ہمت والا نکلا کہ قومی اسمبلی میں سرکردہ سیاستدانوں کو منہ پر ہی کہہ دیا کہ میرے فیصلے آپکے خلاف بھی ہوسکتے ہیں جبکہ دوسرا کٹھ پتلی کا ہی کردار ادا کرکے ہی خوش ہوتا رہا،ایک قومی اسمبلی کے اجلاس میں جاکر بولا تو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا جبکہ دوسرا جب بھی بولا جھوٹ ہی سمجھا گیا، ایک نے جب بھی سچ بولا تو عمرانڈوز نے اس پر حسب ہدایت توپوں کے منہ کھول دیئے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمرانڈوز مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے محض تنقید برائے تنقید کی راہ پر چل رہے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت پر تنقید کرنیوالوں سے سوال ہے کہ وہ تب سوئے ہوئے تھے جب انکے وزیراعظم نے سیاسی تقریب میں وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو پہلی قطار میں بٹھا کر خود کو خود ہی صادق کہا، اس وقت سامنے بیٹھا کٹھ پتلی ثاقب نثار کس طرح اظہار خوشی کرتا رہا سب کو یاد ہے، تب ان کم عقلوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائی کہ کیسے ایک چیف جسٹس سیاسی اجمتاع میں شریک ہوسکتا ہے؟ کیا اس وقت کے چیف جسٹس کی شرکت کا مطلب سیاسی جماعت کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں تھا؟ سابق
چیف جسٹس کی حکومتی تقریب میں شرکت کونسے آئین اور کونسے قانون کے مطابق تھی؟ جس طرح سابق چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی پہنچ کر اسکے آپریشن عملی طور پر معطل کروائے سب کو پتہ ہے، جس کے بعد ہزاروں مریض مفت علاج کی سہولت سے محروم ہوگئے وہ دعائیں تو نہیں دیتے ہوں گے، رات کی سیاہی میں طاقتوروں سے ملنے،کسی سیاسی جماعت کا ٹائوٹ بننے اور قانون کو فیتی فیتی کرنے سے بہتر ہے کہ پارلیمان میں چلے جائیں کیونکہ پارلیمان سپریم ہے، جو ہوا سو ہوا لیکن اگر جسٹس فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے اسپیکر گیلری میں بیٹھ جاتے تو بہت مثبت پیغام جاتا اس کے باوجود یوتھیوں نے مطمئن نہیں ہونا تھا کیونکہ بے چین رہنا انکی سرشت میں ہے،اسمبلی میں سیاستدانوں کے درمیان بیٹھ کر بھی جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بغیر معذرت خوانہ رویہ اپنائے کڑک تقریر کی وہ قابل تحسین ہے، آخر میں چند سطور عدلیہ محاذ آرائی کی نظر ہیں، خوامخواہ کی عدالتی کارروائیوں اور غیر شفاف فیصلوں کی بدولت ایک طرف سیاسی حلقوں اور عدلیہ میں واضح خلیج پیدا ہوچکی ہے تو دوسری جانب اس تقسیم کو رفو کرنے کیلئے اعلیٰ سطح پر کوششیں شروع ہوچکی ہیں، جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جس طرح سے دیوار سے لگایا گیا بچہ بچہ اس پر سوال اٹھا رہا ہے ، اگر عدلیہ نے جانبدارانہ کارروائیوں سے پرہیز نہ کیا تو عالمی سطح پر اسکی بے توقیری میں مزید اضافہ اور سیاسی حلقوں سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔