فنکاروں کی پذیرائی …’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘   

اُلٹ پھیر…شاہد لطیف
 kshahidlateef@gmail.com
 ہمارے فنکاروں کو ہر سال  مُختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر سرکاری اعزازات دیے جاتے ہیں۔ اِن میں اعلیٰ ترین صدارتی تمغہ حُسنِ کارکردگی نمایاں ہے ۔اس سلسلے میں صوبائی آرٹس کونسلیں،  ریڈیو پاکستان،  ٹیلی وژن اور  کلچرل ڈپارٹمنٹ  جیسے ادارے بھی فن و ثقافت کے میدان  اپنے اپنے طور پر کچھ  نا م وفاق کو بھیجتے ہیں۔پھر وہ نام تین ایوارڈ کمیٹیوں سے گزرکر شارٹ لسٹ ہوتے ہیں۔اس کے بعد نام  منتخب کرتا ہے۔ اِن ناموں کا  14  اگست کو اعلان کرکے اگلے سال23   مارچ کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا جاتا ہے ۔صد افسوس کہ کئی ایک نامور فنکار اور تکنیک کارابھی تک اِن انعامات سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم چڑھتے سورج کے پُجاری ہیں جو شخص سورج چڑھا رہا ہے اُس کا علم ہی نہیں !!  ایسا ہی ایک شخص محمد اعظم  آج گمنامی میں ہے ۔ریڈیو پاکستان سے ستمبر 1965  کی جنگ میں کئی ترانے نشر ہوئے۔ آج کی نسل بھی ان گیتوں سے متعلق  ملکہء ترنم نورجہاں،  صوفی تبسم، ؔ  جمیل الدین عالیؔ   اور کسی حد تک اِن کے موسیقاروں سے  واقف ہیں مگر اِن کو ریڈیو سے پیش کس نے کیا ؟  کوئی نہیں جانتا  !!!  ۔کیا کبھی کسی نے ریڈیو  پروڈیوسر’’  محمد اعظم خان  ‘‘ کا نام سُنا  !!    میں تمغہء امتیاز یافتہ موسیقار سجاد طافو کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے ریڈیو پاکستان  کے ’’بادشاہ  گر ‘‘ سے ملاقات کروائی۔اس  قلمی کاوش کا مقصد اس نشست کا احوال بیان کرنا نہیں بلکہ قوم کی حالت پر ماتم کرنا ہے ۔ خلوص اور محنت کس چڑیا کا نام ہے  … ہمارے کارپرداز نہیں جانتے کیوں کہ وہ تو کب کی اُڑ چکی بقول شہزادؔ احمد: 
 جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
 آج کوئی ہے جو ملازمت کو فرض سمجھ کے کرے  
   مجھے یہ جان کر  دُکھ ہوا کہ ستمبر 1965 کے حوالے سے ریڈیو  پاکستان سے میڈم نورجہاں،  صوفی تبسمؔ اور کئی ایک سازندوں کو  صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا ! نہیں دیا تو محمد اعظم خان کو جس نے’’ اِن  سب  ‘‘سے کام کروایا۔  پھر  پاکستانی فلمی صنعت کے  نامور  ہدایت کار ،  مصنف اور  فلمساز ،  نگار،  گریجوئٹ  اور  بولان  ایوارڈ  یافتہ  حسن عسکری بھائی کو پاکستان فلمی صنعت میں کام کرتے ہوئے  53  سال ہو گئے۔اِن کو ایک طرف  تو اپنے شعبے کا ماہر بھی مانا جاتا ہے لیکن کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں انہیں کبھی اعلیٰ ترین سول اعزاز صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا گیا۔اِن کے کام کی عوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی  اور کوئی ایسی سماجی  اور ثقافتی تنظیم نہیں جس نے انہیں نہ سراہا ہو ۔ ذرائع کے مطابق الحمرا  آرٹس کونسل کے سابقہ عہدے دار کیپٹن عطاء نے حسن عسکری بھائی کو  دو مرتبہ اس اعزاز کے لئے تجویز کیا تھا۔ اب یہ حسنِ اتفاق ہے کہ حسن عسکری صاحب نے اپنی فلموں کے ذریعے جن فنکاروں کو متعارف کروایا،  ان میں سے بعض کو  تو یہ تمغہ  مل گیا اور  جو فلم کے پیچھے کھڑا تھا اس کو محروم  رکھا گیا۔ میری طرح  اور  لوگ بھی یہ پوچھنے میں حق بجا نب ہیں کہ جو  اس تمغہ کے لئے نامزدگیاں بھیجتے ہیںکیا وہ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری  سے زیادہ تجربہ کار ہیں ؟   یہ دعویٰ غلط بھی نہیں کہ عسکری بھائی  بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں لیکن ابھی تک حسن عسکری صاحب کو  ان کا صلہ  نہیں مل سکا !!  میں خوش قسمت ہوں کہ عسکری بھائی جیسے  نامور لوگوں سے صحبت ہے۔میرے حلقے میں بعض ایسے بھی مشہور  لوگ رہے ہیں جو  اس اعلیٰ ترین سول اعزاز  سے محروم رہے  اور  دنیا سے ہی چلے گئے اور  پھر انہیں بعد از مرگ یہ اعزاز دیا گیا۔مثلاََ  ہمارے مسرور  ؔانور  المعروف مسرورؔ بھائی۔ ان کو بعد از مرگ  ’’  سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم  قدم آباد تجھے  ‘‘  پر صدارتی تمغہ ء حسنِ کارکردگی اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے دیا۔22  سال تک حکومتِ پاکستان کو علم ہی نہیں ہوا کہ یہ سدا بہار گیت کس نے لکھا  !!  کتنا اچھا ہو،  اگر حسن عسکری بھائی جیسے گوہرِ انمول کی قدر  دانی ان کی زندگی میں کر لی جائے !  نصف صدی سے زیادہ محنت کرنے کے بعد اب یہ ممکن نہیں کہ وہ فلم انڈسٹری کو مستقل ذریعہ معاش بنائیں۔ یہ  اعزاز  جہاں ان کی عزت افزائی کا باعث بنے گا وہاں انہیں کچھ مالی آسودگی بھی فراہم کرے گا۔اِن سنہری لوگوں میںاداکارہ  صابرہ سلطانہ بھی شامل ہیں جن کا فنی سفر اشتہار میںکام کرنے سے شروع ہوا ۔پھر ریڈیو پاکستان کراچی سے ڈرامہ بھی کیا۔ اُن کی پہلی فلم  ’’  انصاف  ‘‘ (1960)  سلور جوبلی ہوئی۔ اُس وقت تاریخی فلمیں بہت بنتی تھیں ۔ کہا جاتا تھا کہ صابرہ سلطانہ شہزادی  یا  ملکہ کے کردار کے لئے بہت موزوں ہیں ۔انہوں نے ہیروئن کے ساتھ ٹائٹل رول بھی ادا کئے۔اپنے عروج میں انہیں ’’ ملکہء حسن ‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ 60  سال سے زیادہ فن کی خدمت کرنے والی  ہمارے ملک کی اس نامور فلم اور ٹیلی وژن فنکارہ کو حکومتِ پاکستان نے ابھی تک تمغہ حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا۔ یہ ہر طرح سے اِس تمغے کی نہ صرف اہل بلکہ حق دار ہیں۔ میری  الحمرا لاہور،   پی این سی اے ،  کلچر ڈپارٹمنٹ  اور  وزارتِ اطلاعات و نشریات کے  اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے یہ نیک کام کر کے شکریہ کا موقع دیں۔ فنکاروںکی اُن کی زندگی میں قدر کیجئے !  ویسے ہمیں یہ ہی نہیں معلوم کہ صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی  دینے کا معیار کس کو بنایا گیا ہے؟  میری رائے میں اس سب سے بڑے ایوارڈ کا معیار صرف کار کردگی کی مدت ہونا چاہیے۔ کہ کسی  فنکارنے کم از کم 20   سال اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ فعال  فنکار سب کی نظروں میں ہوتے ہیںان کا کام ،  ان کا نام  اور ان کی تصاویر سماجی رابطوں میںتواتر سے آتی ہیں۔ نیز اعلی حکام کی محافل انہیں مزید قربتیں عطا کرتی ہیں۔ لیکن وہ فنکار جو اپنی زندگی کا بہترین حصہ فن کی خدمت میں لگا کر اب گوشہ نشین ہیں انہیں ان کا حق ضرور ملنا چاہیے ۔آرٹس کونسلوں کوچاہیے کہ وہ اپنے فنکاروں کے دو گروپ بنا لیں :  ایک فعال فنکار دوسرے غیر فعال لیکن اپنے زمانے کے نامور فنکار !! تا کہ ہر دو طرح کے فنکاروں کو ان کا حق مل سکے۔

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...